ِِسر فر وش

یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میری خواہش تھی کہ گلاب گڑھ میں رکنے کے بجائے سیدھا بھاگو گاؤں روانہ ہوجاؤں۔ میرا صبح کے وقت وہاں پہنچنا بے سود ہوتا۔ کیونکہ میں رات کے اندھیرے میں ہی بکرم جیت سنگھ کی حویلی میں داخل ہونے کی کوشش کرسکتا تھا۔ لیکن سردیوں کے موسم میں اتنی رات گئے تنگوالی پہنچنے پر اصرار بھی ان پر جوش دیہاتی میزبانوں کو عجیب لگتا۔
میں سوچ رہاتھا کہ ویسے بھی بغیر سواری کے اتنی اندھیری رات میں بھاگو گاؤں پہنچنا اپنی جگہ ایک انتہائی کٹھن مرحلہ ہوگا، جبکہ راستہ بھٹکنے اور کتوں کی فوج کا سامنا ہونے کے بھی قوی امکانات ہیں۔ بہتر یہی رہے گا کہ کل صبح یہاں سے میں تنگوالی کے لیے روانہ ہوجاؤں اور سارا دن کسی طرح گزار کر شام ڈھلے بھاگو گاؤں کا رخ کروں۔ میری سوچ کا یہ سفر پورا ہونے تک ہم لوگ گلاب گڑھ پہنچ گئے، جو ایک بڑا سا گاؤں ثابت ہوا۔ ایک بڑے سے احاطے میں واقع عظیم الشان حویلی جوگندر کے خاندان کی بلند مالی حیثیت کی داستان سنا رہی تھی۔ جیپ کے احاطے میں داخل ہوتے ہی حویلی میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ یکے بعد دیگرے حویلی کے مختلف حصوں سے چھوٹی بڑی عمر اور جنس کے درجنوں لوگ برآمد ہو رہے تھے اور جوگندر اور لاجو بھرجائی کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ اس دوران میری حیثیت محض تماشائی کی رہ گئی تھی۔ چنانچہ میں نے مہندر کو تلاش کر کے درخواست کی کہ مجھے میری شب گزاری کے مقام تک لے چلے۔
اس نے مجھ سے پُر زور معذرت کی۔ کچھ ہی دیر بعد ہم حویلی کے باہر کے رخ پر واقع ایک کمرے میں موجود تھے۔ جو غالباً پہلے سے بطور مہمان خانہ استعمال ہو رہا تھا۔ وہاں دیہاتی طرز کی دو پلنگ نما چارپائیوں پر گرم بستر لگے ہوئے تھے۔ مہندر نے مجھ سے کھانے کا پوچھا اور میرے انکار کرنے پر جائے حاجت کا بتاکر صبح ملاقات کا وعدہ کرکے رخصت ہوگیا۔ میں نے کمرے کا دروازہ بند کر کے بستر سنبھالا اور موٹی رضائی کی گرمائش سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا۔ مہندر ایک بڑی سی لالٹین بھی میرے کمرے میں رکھ گیا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے لالٹین کی لو کم کر دی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
شاید کئی دنوں بعد آرام دہ نیند میسر آنے کی وجہ سے صبح کافی دیر سے میری آنکھ کھلی۔ اس دوران کسی نے مجھے اٹھانے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ کمرے کی کنڈی بدستور لگی ہوئی تھی۔ باہر بھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں اٹھ کر باتھ روم گیا اور واپس آکر ہلکی پھلکی ورزش کے بعد ایک بار پھر بستر میں گھس گیا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں تھی۔ تنگوالی پہنچ کر بھی مجھے رات ہونے کا انتظار کرنا تھا۔ یہاں رہتے ہوئے یہ کام زیادہ سہولت اور راحت کے ساتھ انجام پا رہا تھا۔ لیکن سورج اچھا خاصا چڑھنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہ پاکر مجھے بیزاری ہونے لگی۔
میں نے پڑھنے کے لیے کوئی چیز تلاش کرنا چاہی، لیکن کمرے میں کتاب یا رسالہ تو کیا، کوئی اخبار جیسی قابلِ مطالعہ چیز بھی نہیں ملی۔ بالآخر میں کوفت مٹانے کے لیے دروازہ کھول کر حویلی کے بیرونی احاطے میں آگیا۔ رات کے وقت مجھے واضح طور پر جائزہ لینے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ لیکن اس وقت لگ بھگ ہاکی گراؤنڈ جتنا وسیع اور بھٹے کی اینٹوں والے پختہ فرش والا احاطہ میری نظروں کے سامنے تھا۔ اس کے گیٹ پر مسلح چوکی دار تعینات تھے۔ دائیں طرف غالباً ملازمین کے سادہ اور مختصر مکانات تھے، جبکہ دوسری طرف ایک بڑے سے سائبان تلے چھ سات چھوٹی بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ سائبان کے ساتھ ہی دو کمروں پر مشتمل ایک بارک نما عمارت بھی دکھائی دی، جو غالباً حویلی اور مہمانوں کے ڈرائیوروں کی قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوتی ہوگی۔
احاطے میں نوکروں والے حلیے کے کئی افراد ادھر سے ادھر آتے جاتے دکھائی دیئے۔ میں نے حویلی کے داخلی دروازے سے نکلنے والے ایک ادھیڑ عمر ملازم کو اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ ’’جی سرکار‘‘۔ اس نے مؤدب لہجے میں کہا۔ ’’یار مہندر سنگھ جی کو بلا سکتے ہو؟‘‘۔
اس نے میری بات غور سے سنی۔ ’’چھوٹے سرکار تے یارہ بارہ بجے تو پہلاں نئیں اٹھدے، تُسی آرام کرو، میں تہاڈے کھان پین دا پربندھ کرنا واں‘‘۔ (چھوٹے سرکار تو گیارہ بارہ بجے سے پہلے نہیں جاگتے۔ آپ آرام کریں، میں آپ کے ناشتے کا بندوبست کرتا ہوں)۔
’’کھان نوں تے تُوں لے ای آ یار، پر او نہاں نو اٹھدے ہی دسنا! میں انہاں دی اڈیک کر ریا ہاں‘‘۔
( ناشتہ تو تم لے ہی آؤ یار۔ لیکن اٹھتے ہی انہیں بتانا کہ میں ان کا انتظار کر رہا ہوں)۔
مجھے کمرے میں واپس جاکر لگ بھگ آدھا گھنٹا مزید انتظار کرنا پڑا۔ دروازے پر آہٹ ہونے پر میں نے چونک کر دیکھا تو لاجو بھرجائی اندر داخل ہوتی نظر آئی۔ وہی نوکر ناشتے کا طباق اور لسی سے بھری ایک چھوٹی سی مٹکی اٹھائے ساتھ تھا۔ ’’مافی چاہنی آں آکاش بھرا جی۔ ناشتے اچ دیر لا دتی۔ ساری حویلی وچ دیر راتی تیکر جگار رئی۔ چھوٹے وڈے سردار تے حالی تیکر نندر پوری کردے پئے نیں‘‘۔ (معافی چاہتی ہوں آکاش بھائی، ناشتے میں دیر ہوگئی۔ ساری حویلی والے رات دیر تک جاگتے رہے۔ چھوٹے بڑے سردار تو ابھی تک نیند پوری کر رہے ہیں)۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment