کم عمر گائیڈ میرے لئے رحمت کا فرشۃ ثا بت ہوا

معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
ہم نے نالے میں اصل کوہ نمک یا مرکز کوہ نمک تک کا ابھی نصف فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ ایک مشکل مقام آگیا۔ یہ ایک چھوٹا سا (تقریباً 15 فٹ کا) آبشار تھا۔ اس جگہ نالے کی چوڑائی کوئی 50 فٹ ہوگی۔ یہاں تمام نالے کا پانی یکجا ہوکر ایک چھوٹے سے آبشار کی شکل میں میری داہنی طرف (جبکہ میرا منہ نالے کے منبع کی طرف تھا) گرتا تھا اور نالے کی بیڈ کا درمیانی اور میرے بائیں ہاتھ والا حصہ تقریباً خشک تھا۔ مسلم رحیمی تو ہلکا پھلکا اور کثرتی بدن والا بچہ تھا۔ وہ بائیں یعنی خشک سائڈ سے بندر کی طرح چڑھ کر اوپر پہنچ گیا۔ مگر جب میں چڑھنے لگا تو نرم زمین اور پتھروں کے پیر کے نیچے سے نکل جانے کی وجہ سے میں درمیان سے ہی نیچے آرہا۔ دوبارہ کوشش کی مگر پھر بھی یہی معاملہ رہا۔ اس پر مسلم رحیمی اوپر سے بولا کہ ایک مرتبہ پھر کوشش کریں، میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کھینچ لوں گا۔ مگر میری انا آڑے آئی اور میں نے دل میں کہا کہ میں PMDC کا سابق چیف جیولوجسٹ جس نے ابھی تک مشکل مرحلوں میں دوسروں کی مدد کی ہے، کیا اب ایک بچے کے سہارے اوپر جائے گا؟ میں نے مسلم رحیمی سے کہا کہ تم خاطر جمع رکھو، میں خود اپنے ہاتھ پیروں سے چڑھ کر ہی اوپر آؤں گا۔ پھر میں نے پتھر جمع کرکے کوئی ڈیڑھ یا دو فٹ اونچا ایک ستون بنایا کہ اس پر پیر رکھ اوپر چڑھنا آسان ہوجانے کی امید تھی۔ مگر جیسے ہی میں نے ستون پر پیر رکھا اور اس پر پورا زور دے کر کھڑے ہونے کی کوشش کی، وہ دھڑام سے گر پڑا جس سے مجھے معمولی چوٹ آئی۔ مگر میں نے ہار نہ مانی۔ پھر پتھروں کا ایک اور ستون بنایا اور پھر اس پر سے گرا۔ دراصل میں اپنے پتھروں کے ستون کی کمزوری کی وجہ سے کم اور اپنی ٹانگوں کے کانپنے اور لرزنے سے زیادہ گرتا تھا۔ مسلم رحیمی نے پھر اوپر سے آواز دی کہ میری مدد قبول کر لیجئے۔ مگر ایک دفعہ پھر میں نے انکار کردیا۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ کہ آبشار والی سائڈ سے اوپر جاؤں گا۔ اس سائڈ میں یہ تو فائدہ تھا کہ یہ پکی تھی اور بھربھری یا کمزور پتھروں سے مل کر نہ بنی تھی۔ مگر دوسری مصیبت یہ تھی کہ شور زدہ پانی کے مستقل گرنے سے ہر پتھر کی سطح چکنی ہو گئی تھی۔ پیر ٹکانے کی جگہیں موجود تھیں، مگر ہر جگہ پانی سے تر اور چکنی تھی۔ میں نے دو دفعہ اوپر چڑھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ ایک مرتبہ تو کلف کے درمیان سے گرا۔ دوسری مرتبہ تقریباً اوپر پہنچ کر پھر نیچے آرہا۔ اب میری حالت اتنی پتلی ہوگئی کہ میں بغیر کوہ نمک تک جائے واپس جانے کی بابت سوچنے لگا۔ مگر پھر اپنے آپ کو ملامت کی کہ کوہ نمک کو وزٹ کرنے کے لئے تو 1984ء خواہش اور دعا کر رہا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے یہاں تک آنے کی سبیل پیدا کردی تو واپس جانے کی بابت سوچ رہا ہے۔ تیسری مرتبہ میں نے اپنی تمام طاقت مجتمع کی اور دل میں مصمم ارادہ کیا کہ اوپر پہنچنا ہی ہے چاہے جو کچھ بھی ہو۔ پھر میں نے کلف پر چڑھنا شروع کیا اور بفضل تعالیٰ ایسی جگہ پہنچ گیا، جہاں سے کلف کا ٹاپ صرف ایک جست کے فاصلے پر رہ گیا۔ صورت حال یہ تھی کہ کلف کے ٹاپ کے قریب ایک چھوٹے مگر مضبوطی سے اندر گھسے ہوئے پتھر کو میں نے اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا ہوا تھا اور میرا سیدھا پیر بھی کلف سے باہر نکلے ہوئے ایک پتھر پر ٹکا ہوا تھا۔ البتہ میرا بایاں پیر اور بایاں ہاتھ فری تھا۔ نمکین پانی ہر طرف سے شور مچاتا ہوا اوپر سے نیچے اور میرے دائیں بائیں گر رہا تھا۔ میں نے اوپر جست لگانے کے لئے پہلے اپنے داہنے ہاتھ اور داہنے پیر پر زور دے کر اور اپنے بائیں پیر کو اوپر اٹھا کر جست کی۔ مگر عین اسی لمحے وہ پتھر کہ جس پر میرا داہنا پیرٹکا ہوا تھا، زیادہ دباؤ پڑنے سے اپنی جگہ سے نکل گیا اور میں صرف اس پتھر کے سہارے جو میرے داہنے ہاتھ کی گرفت میں تھا لٹکا رہ گیا۔ صرف ایک ہاتھ کے بل پر میں کلف پر ایک زخمی پرندے کی طرح پھڑ پھڑانے لگا اور عالم دیوانگی میں اپنا بایاں ہاتھ اور پیر کلف پر مارنے لگا۔ عین اسی لمحے مسلم رحیمی فرشتہ بن کر میری مدد کو آپہنچا اور اس نے حقیقت میں مجھے ایک بچے کی طرح میرے بازو تھام کر اوپر گھسیٹ لیا۔ جب میں خیریت سے آبشار کے اوپر پہنچ گیا اور میرا پھولا ہوا سانس بھی اپنی نارمل حالت پر آگیا تو میں نے مسلم رحیمی کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ وہ واقعی اس وقت مجھے ایک انسان نہیں بلکہ فرشتہ نظر آرہا تھا۔
اس مشکل مرحلے سے نکل کر ہم نے کوہ نمک کے مرکز کی جانب اپنا سفر جاری رکھا اور بالآخر ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جو مرکز کی ایک سائڈ پر خاصی بلندی پر تھی اور ایک ایسے موزوں مقام پر تھی کہ وہاں سے مرکز کا پورا نظارہ کسی کلاس روم میں آویزاں ایک بڑے تعلیمی بورڈ کی طرح اپنی تمام تر شان و شوکت اور تفصیل کے ساتھ ہمارے سامنے تھا۔ میں نے مسلم رحیمی سے کہا کہ بیٹا، تم نے مجھے یہاں تک پہنچا کر اپنا کام بہت حسن و خوبی کے ساتھ انجام دے دیا۔ اب میں اپنا کام کرتا ہوں۔ تم چاہو تو میرے پاس بیٹھو اور چاہو تو اس عجیب و غریب علاقے میں ادھر ادھر گھومو پھرو۔ ساتھ ہی میں نے اسے کچھ پتھر کے نمونے جمع کرنے کی ڈیوٹی بھی تفویض کردی۔ سب سے اہم کام جو میں نے وہاں کیا، وہ کوہ نمک کا ایک تفصیلی اسکیچ جیولوجیکل سیکشن تیار کرنا تھا۔ بفضل تعالیٰ میں نے پاکستان اور ایران کے بہت سے گنبد نمکی یا سالٹ ڈوم دیکھے ہیں، مگر جو وسعت، خوبصورتی اور شاہانہ جلال میں نے کوہ نمک میں دیکھا وہ کہیں اور نہ پایا۔ اس کے شاندار اور نکھرے ہوئے چہرے کو دیکھ کر میں حقیقت میں مبہوت ہوکر رہ گیا۔ تقریباً ڈیڑھ میل لمبا اور میل بھر چوڑا نمک کا علاقہ میرے سامنے تھا اور اس سے میرا فاصلہ بھی ایک سے دو کلو میٹر تک تھا۔ مگر اس کے باوجود اس کی چھوٹی سے چھوٹی اور باریک سے باریک تفصیل بھی میرا سامنے آئینے کی طرح ہویدا تھی اور میں اس کو اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ پڑھ سکتا تھا۔ میں نے کوہ نمک کے مرکز کے ہر گوشے کی مختلف زاویوں سے تصاویر لیں۔ مگر یہ سب تفاصیل جمع کرتے اور اس شاندار نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مجھے ایک بات مستقل چبھ رہی تھی کہ کوہ نمک کی جو تفاصیل میں نے ایران آنے سے پہلے مختلف ارضیاتی لٹریچر سے جمع کی تھیں، وہ ان سے بہت مختلف تھیں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ مجھے مستقل محسوس ہو رہا تھا کہ اگلے لوگوں نے کوہ نمک کے نام سے جو کوائف آنے والوں کیلئے چھوڑے ہیں وہ کسی دیگر سالٹ ڈوم کے ہیں اور یہ کوئی اور سالٹ ڈوم ہے۔ اور اگر ایسا نہیں تو پھر صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ جب ان صاحبان نے اپنا ڈیٹا جمع کیا تو اس کی شکل اور تھی اور اب اور ہے۔ مگر اس نقطہ نظر کا حقیقت پر مبنی ہونا خاصی دور کی بات لگتی ہے۔ اغلب گمان یہی ہے کہ ان سے سہواً کوہ نمک کے بیان کے نیچے سیمنان (تہران کے مشرق میں) کسی سالٹ ڈوم کا ڈیٹا شائع ہوگیا ہے۔ اگرچہ ان کے بیان کردہ کچھ حقائق کوہ نمک پر بھی منطبق ہوتے ہیں۔
کوہ نمک کے مرکز (core) میں نمک کا عظیم مظہر تقریباً چار ہزار فٹ چوڑا اور دو ہزار فٹ اونچا ہے اور یہ سفید و سلیٹی اور سلیٹی و سیاہ نمک کی دبیز پرتوں سے مل کر بنا ہے۔ قدرت نے سیکشن کی نچلی سائڈ پر نمک کی پرتوں کی حد بندی کالے رنگ کی چکنی مٹی کی پتلی پرتوں سے کی ہے۔ جبکہ سیکشن کے اوپری حصے میں یہ نشاندہی گلابی رنگ کے نمک کی پتلی پرتوں سے کی گئی ہے، جو دور سے گلابی رنگ کی ڈوریاں لگتی ہیں۔ ان میں سے ایک گلابی رنگ کی پتلی پرت جگہ جگہ عجیب و غریب گول یا بیضوی چھلے (rings) بناتی ہے۔ علاوہ ازیں جو بات بڑی خاص ہے اور جو ایرانی نمک کے گنبدوں تک ہی محدود ہے، یہ ہے کہ نمک کے اس عظیم مظہر میں جابجا کالے رنگ کے کھاری (basic) اور مادرائے کھاری (ultra basic) آتشیں چٹانوں کے بلاک ملتے ہیں جو وزن میں تقریباً ایک کلو گرام سے لے کر ایک ایک ہزار کلو گرام یعنی ایک ٹن وزن تک کے ہوتے ہیں۔ یہ کالے رنگ کی چٹانوں کے بلاک کونے دار سے نیم کونے دار شکل کے ہیں۔ یہ بلاک کسی سیدھ (allignment) کو نہ مانتے ہوئے نمک کے لامتناہی ماس (mass) میں ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ راقم الحروف نے نالے کے ملبے میں پڑے ہوئے بعض بلاکوں میں چہار شعائی ستاروں یا پھولوں کی شکل کی معدنیاتی اشکال بھی دیکھی ہیں۔ کالے رنگ کی سخت آتشی چٹانوں کے یہ بلاک ان آتشی چٹانوں کے ہیں، جو نمک کے پلگ کو زمین کی گہرائی سے اوپر کی جانب سے سفر کرتے ہوئے اپنے راستے میں ملیں اور جن کو توڑ پھوڑ کر وہ اپنے ساتھ کھینچ لایا۔ یہ آتشی چٹانیں کوہ نمک کے علاقے میں کہیں بھی بالائے زمین موجود نہیں ہیں۔ بس کوہ نمک کے طفیل ہی ہم ان کی زیر زمین موجودگی سے واقف ہوئے ہیں۔ یہ کالی چٹانوں کے بلاک جنوبی ایران کے اور بھی کئی نمک کے گنبدوں میں ملتے ہیں۔ راقم الحروف نے آبنائے ہرمز میں ایسے ہی ایک نمک کے گنبد میں جس کا نام اسی نام کے جزیرے کے نام پر یعنی لارک سالٹ ڈوم ہے، کالے رنگ کی چٹان کے ایسے ہی ایک بلاک میں روبی اسپائنل (ruby spinel) کے چھوٹے مگر تیز سرخ رنگ کے crystal بھی دیکھے ہیں۔
میں ابھی اپنے کام اور کوہ نمک کے حسن میں گم تھا کہ شام ہونے لگی، ساتھ ہی مسلم رحیمی بھی بے چین دکھائی دینے لگا۔ آخر اس نے مجھ سے کہا کہ دیر ہوگئی ہے، ہمیں فوراً واپس چلنا چاہئے، تاکہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہم اس وادی سے نکل جائیں۔ میں نے اپنا سامان سمیٹا، کیمرے سے آخری تصویر اتاری اور پھر ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ میں اپنے بڑھاپے (اس وقت میری عمر 65 سال تھی)، پورے دن کی بھاگ دوڑ اور مناسب غذا پیٹ میں نہ جانے کی وجہ سے خاصی تھکن اور کمزوری محسوس کر رہا تھا اور نتیجتاً میری رفتار سست تھی۔ جبکہ مسلم رحیمی خاصا تیز چل رہا تھا۔ جب میرے اور اس کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوجاتا تو وہ کچھ دیر رک کر میرے پہنچنے کا انتظار کرتا۔ اس طرح ابھی ہم نے واپسی کا تقریباً نصف راستہ ہی طے کیا تھا کہ وادی میں روشن خاصی کم ہوگئی۔ میں نے دیکھا کہ مسلم رحیمی کے چہرے پر خوف اور پریشانی کے آثار نمایاں ہیں۔ وہ بار بار مجھے تیز چلنے کی ہدایت کر رہا تھا۔ آخر تنگ آکر اس نے مجھے چھوڑا اور تیز تیز چلتا ہوا میری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ اب میں اس شام کے بارے میں سوچتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ شاید مسلم رحیمی اور اس کے گھر والوں کے اس نالے میں رات کے قیام کے تجربات کچھ خوشگوار نہیں تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ رات کو اس وادی میں جن اور بھوتوں کا قبضہ ہوجاتا ہے اور وہ انسانوں کے لئے تکالیف کا باعث بنتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ آتے وقت پانی کے جس آبشار پر میں نے اتنی تکلیف اٹھائی تھی اور اپنا خاصا وقت بھی ضائع کیا تھا، اس پر سے میں بے دھیانی میں مسلم رحیمی کے پیچھے پیچھے بڑے آرام سے اور بغیر اس کی مدد کے اتر آیا۔ مگر اس مرتبہ میں آبشار والی سائڈ سے نہیں، بلکہ نالے کی نسبتاً خشک سائڈ سے اترا، جہاں آتے وقت میں پتھروں کے ستون بناتا رہا تھا اور جہاں سے اوپر چڑھنے میں ناکام رہا تھا۔
ادھر مسلم رحیمی جب اکیلا اپنے گھر پہنچا تو اس کے باپ کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ اپنے بیٹے کو لے کر سیدھا شعبانی صاحب کے پاس آیا اور ان کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ پھر روشنی کا بندوبست کرکے وہ تینوں صاحبان میری تلاش میں اوپر نالے میں گئے۔ ابھی وہ نالے کے منہ والے درے ہی میں تھے کہ میں ان تک پہنچ گیا۔ مجھے ٹھیک ٹھاک پاکر ان سب نے خوشی کا اظہار کیا۔ مسلم رحیمی کا اصرار تھا کہ ہم رات کا کھانا اس کے گھر پر کھا کر اپنے سفر پر نکلیں، مگر شعبانی صاحب اور اس ناچیز نے اپنے میزبان کی صرف سبز چائے منظور کی۔ وہ پی کر اور مسلم رحیمی کو اس کا مناسب محنتانہ ادا کرکے یہ حقیر جناب اردلان شعبانی کے ساتھ ان کی کار میں شیراز کے لئے روانہ ہوگیا۔

Comments (0)
Add Comment