لاکھوں برطانوی شہری سڑکوں پر سونے پر مجبور

مہذب اور ترقی یافتہ کہلائے جانے والے برطانیہ میں بڑھتی مہنگائی اور غربت کے نتیجے میں لاکھوں شہری اب بھی اپنا گھر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ سر پر چھت نہ ہونے کے باعث لاکھوں برطانوی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ بے گھر افراد میں بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے نوجوانوں کے علاوہ بچے، بوڑھے اور سنگل مائیں بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس شدید سردی چار دیواری سے محروم 100 افراد کی جان لے گئی تھی۔
برطانوی چینل فور ٹی وی کی ایک رپورٹ میں بے گھر افراد کی تعداد لاکھوں میں بتائی گئی ہے، جس کم از کم تین لاکھ بالغ اور برسر روزگار افراد بے گھر ہیں۔ نوجوان ملازمتوں سے لوٹنے کے بعد سڑکوں کا رُخ کرتے ہیں اور منتظر ہوتے ہیں کہ رات ہونے پر کسی پارک یا سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بوریا بستر کے ساتھ چھائونی چھا لیں۔ برطانیہ میں بے گھر افراد کیلئے خیراتی اجتماعی گھروں کا اہتمام کرنے والے ادارے ’’شیلٹر‘‘ کی چیف ایگزیکٹیو پولی نیٹ کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں بے گھر شہریوں کا بحران بڑھ رہا ہے، جس میں سنگل مائوں اور تنہا رہنے والوں سمیت معمر افراد شامل ہیں۔ معاشرے میں سماجی شکست و ریخت کی وجہ سے گھروں میں جوائنٹ سسٹم میں رہنے والے افراد الگ ہورہے ہیں اور نئے جوڑے اور افراد کرائے پر چلے جاتے ہیں لیکن ان کے پاس اس قدر اندوختہ نہیں ہوتا کہ وہ کرایہ برداشت کرسکیں۔ اس لئے وہ خیراتی اداروں اور سرکاری و نجی شیلٹرز میں چلے جاتے ہیں یا پھر سڑکوں پر سونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ بے گھر نوجوانوں میں 80 فیصد برسر روزگار ہیں اور ماہانہ مشاہرہ پاتے ہیں۔ لیکن اس رقم سے وہ اپنے لئے کرائے کا گھر نہیں لے سکتے اور نا ہی یوٹیلٹی بلز ادا کرسکتے ہیں۔ ایسے چھوٹے خاندانوں کی تعداد 2010 میں محض 40 ہزار تھی، جو 2018 میں بڑھ کر 80 ہزار سے اوپر جاچکی ہے۔ برطانوی منسٹری آف ہائوسنگ کا اس سلسلہ میں موقف ہے کہ خاندان ٹوٹنے اور بڑے ہونے پر بچوں کی جانب سے والدین سے الگ رہائش اختیار کرنے کے معاملات سے بے گھر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، جبکہ نوجوان جوڑوں میں آپسی ناچاقی کے سبب بھی سماجی مسائل اور خانہ بدوشی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس منظر نامہ پر لیبر پارٹی کے رہنما اور شیڈو ہائوسنگ سکریٹری جان ہیلے کا کہنا ہے کہ صورت حال کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، جو سماجی مسائل کو حل کرنے اور متعلقہ شعبوں کی مالی امداد سمیت فنڈز کی فراہمی میں ناکام ہے۔ ایک بیان میں جان ہیلے کا استدلال تھا کہ بے گھر افراد کا مسئلہ برطانیہ کا قومی مسئلہ ہے، جس کا درد محسوس کیا جارہا ہے اور یہ مسئلہ سال2010 سے تیزی سے پنپا ہے۔ واضح رہے کہ ہر سال بارشوں، شدید گرمیوں یا برفباری سمیت دیگر عوامل کے باعث برطانوی بے گھروں کی تواتر سے اموات بھی واقع ہورہی ہیں اور گزشتہ دسمبر شدید سردی کے سبب بیمار ہوجانیے والے 4 ہزار 700 بے گھر افرادکو علاج کیلئے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود 100کی ہلاکتیں ہوئی تھی۔ دوسری جانب برطانوی ہائوسنگ کے وزیر ہیتھر وہیلر کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت نے بے گھروں کی تعداد کم کرنے کیلئے تین کروڑ پائونڈز کا فنڈ مختص کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 تک بے گھروں کی تعداد کو 50 فیصد کم کرنے اور 2027 میں بے گھر افراد کی تعداد یکسر ختم کر دینے کیلئے کا م کیا جا رہا ہے۔ خاتون ہائوسنگ وزیرکا دعویٰ ہے کہ اگر ان کے دور میں بے گھر افراد کے معاملہ میں کوئی بہتری محسوس نہ ہوئی تو وہ مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گی۔ ہیتھرو ہیلر نے بتایا ہے کہ مختص کی گئی رقم میں سے لاکھوں پائونڈز یونین کونسلز کو دیئے جارہے ہیں، جو مقامی سطح پر خرچ کئے جائیں گے۔ جبکہ دس لاکھ پائونڈز کی ایک الگ خطیر رقم نجی اداروں اور خیراتی شیلٹرز کو بھی دی جارہی ہے۔ سماجیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بالغ اور بر سر زورگار افراد کے علاوہ حکومتی وظیفہ پر گزر بسر کرنے والے 3 سے 4 لاکھ بے روز گار افراد بھی بے گھر ہیں۔ یہ لوگ پیٹ پالنے کیلئے دن بھر بھیک مانگتے ہیں اور سڑکوں، پارکوں یا پلوں سمیت ٹیوب اسٹیشن کے اطراف مناسب مقامات پر رات کو سوجاتے ہیں۔ برطانوی جریدے گارجین نے بتایا ہے کہ بالغ افراد کی طرح لاکھوں برطانوی بچے بھی ہیں، جو گھروں سے بھاگنے اور والدین کی جانب سے چھوڑ دیئے جانے کے باعث سڑکوں پر رہتے ہیں۔ برطانوی معاشرے میں بے گھر بچوں کی بڑھتی تعداد کے بارے میں مقامی جریدے ڈیلی سن نے بتایا گیا ہے کہ ہر سال بے گھر بچوں کی تعداد میں 80 فیصد کا ہوش رُبا اضافہ ہو رہا ہے اور امسال2018کی ابتدائی سہ ماہی میں حکومتی اور غیر سرکاری اداروں نے بے گھر اطفال کی تعداد ایک لاکھ انتیس ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 60 برس اور اس سے اوپر عمر والے سینئر شہریوں میں بھی بے گھر ہونے کا تناسب بتدریج بڑھ رہا ہے اور اس وقت سڑکوں پر سونے والے بے گھر بوڑھوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ بوڑھے لندن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ معمر افراد شہریوں کیلئے برطانوی حکومت نے شیلٹرز اور اولڈ ہومز بنائے ہوئے ہیں۔ برطانوی سرزمین پر بے روز گار اور با روز گار بے گھروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں معروف جریدے ڈیلی میل آن لائن نے بتایا ہے کہ ان میں ایسے افراد بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں، جو بڑی برطانوی کمپنیوں میں مختلف درجاتی ملازمتیں کر رہے ہیں، لیکن ان کا مشاہرہ ان کو گھر خریدنے تو درکنار کرائے کے مکان کیلئے بھی ناکافی ہے۔ اسی لئے ایسے برسر ملازمت افراد بھی راتیں سڑکوں اور عوامی مقامات پر بسر کرنے پرمجبور ہیں۔ برطانوی ہائوسنگ سکریٹری ساجد جاوید کے مطابق بے گھر افراد کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک ٹاسک فورس بھی قائم کی جاچکی ہے، کیونکہ شدید سردی اور نامساعد موسم میں بے گھر افراد کی ہلاکتیں ناقابل قبول ہیں۔

Comments (0)
Add Comment