شاہ محمود قریشی اپنی وزارت عظمیٰ کا راستہ ہموار کرنے لگے

گھاگ سیاستدان شاہ محمود قریشی مستقبل کا وزیر اعظم بننے کے خواب ہی نہیں دیکھ رہے، بلکہ اس حوالے سے انہوں نے منصوبہ بندی بھی ترتیب دینی شروع کر دی ہے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کیمپ سے بڑی دلچسپ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ اپنے پرانے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اندرون خانہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں سے رابطے استوار کر لئے ہیں اور بڑی خاموشی کے ساتھ خود کو اگلے وزیر اعظم کے طور پر پروموٹ کر رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس حوالے سے سابق وزیر خارجہ نے جو خاکہ ترتیب دیا ہے، اس کے مطابق الیکشن کے بعد ممکنہ طور پر جب کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور آزاد امیدواروں کو ملانے کے باوجود پی ٹی آئی کو مخلوط حکومت کے لئے پیپلز پارٹی کی ضرورت پڑے گی تو یہی وہ موقع ہو گا، جب شاہ محمود قریشی اپنے کارڈ کھیلنا شروع کریں گے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں کو یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ اگلی حکومت بنانے میں سرگرم کرداروں کو پی پی پی کی جانب سے یہ عندیہ دیا جا چکا ہے کہ الیکشن کے بعد اگر مخلوط حکومت کے لئے تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی کی ضرورت پڑتی ہے تو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیپلز پارٹی کسی صورت عمران خان کو قبول نہیں کرے گی اور اس کی جگہ اپنے وزیر اعظم کا نام دے گی، جو ممکنہ طور پر آصف علی زرداری کا ہو گا۔ تاہم اس نام کو عمران خان مسترد کر دیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس کے نتیجے میں جب ممکنہ طور پر ڈیڈ لاک پڑے گا تو یہی وہ موقع ہو گا جب وزارت عظمیٰ کے متبادل امیدوار کے طور پر شاہ محمود قریشی کا نام پیش کیا جائے گا، جس کی پیپلز پارٹی حمایت کرے گی۔ ذرائع کے مطابق اسی ممکنہ ڈیڈ لاک میں ہی آصف علی زرداری مسلم لیگ’’ن‘‘ کی طرف ہاتھ بڑھانے کا کارڈ استعمال کرنے کا ذہن بنا چکے ہیں، تاکہ ممکنہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لئے پی ٹی آئی کے سرپرستوں کو بلیک میل کر سکیں۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور اہم عہدیداروں میں مستقبل کے اس سنیاریو پر اندرون خانہ خاصی ڈسکس ہو رہی ہے، اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پی پی کے ساتھ خاموشی سے اپنے روابط مضبوط کرنے والے شاہ محمود قریشی کی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے سے متعلق خواہش اگر پوری نہیں ہوتی تو پھر ’’سنجرانی ماڈل‘‘ کو بروئے کار لایا جائے گا۔ اور دوسری جانب شاہ محمود قریشی تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بنانے کی طرف جائیں گے۔
ادھر الیکشن جیسے نازک موقع پر عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان پڑنے والی دراڑ نے پی ٹی آئی کو خاصا دھچکا پہنچایا ہے۔ عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے والے پی ٹی آئی رہنما کے ایک ساتھی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اپنے قریبی حلقوں میں جہانگیر ترین اب کھلے عام عمران سے اپنے گلے شکوے بیان کرتے پھر رہے ہیں۔ اس قریبی ساتھی کے مطابق اس کے پاس جہانگیر ترین کی جانب سے بھیجا جانے والا وہ ایس ایم ایس محفوظ ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’عمران خان نے انہیں قربانی کا بکرا بنایا‘‘۔ اس جملے کا پس منظر بتاتے ہوئے قریبی ساتھی کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب ترین کے علم میں یہ بات آئی کہ ان کی نااہلی سے بہت پہلے عمران خان نے اپنے قریبی لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ نااہلی سے بچ جائیں گے، تاہم جہانگیر ترین کو لٹکا دیا جائے گا۔ بعد ازاں اس پر جہانگیر ترین نے باقاعدہ عمران خان سے شکوہ کیا کہ وہ دوسروں سے جب یہ باتیں کر رہے تھے تو انہیں کیوں نہیں بتایا۔ اس کے بعد سے عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان فاصلے بڑھنے شروع ہوئے اور اب تقریباً جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم سے خود کو سائیڈ کر لیا ہے۔ قریبی ساتھی کے بقول جہانگیر ترین کو یہ شکوہ بھی ہے کہ بعض اہم پارٹی رہنمائوں کی جانب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ بیچنے اور کرپشن کے شواہد عمران خان کے سامنے رکھے جانے کے باوجود پارٹی چیئرمین نے ان رہنمائوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس سلسلے میں اسے جہانگیر ترین نے بتایا کہ ’’میں نے پی ٹی آئی شمالی پنجاب کے صدر عامر کیانی اور علیم خان سمیت دیگر کے خلاف شواہد عمران خان کو پیش کئے تھے۔ لیکن انہوں نے کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا‘‘۔ عامر محمود کیانی کو قبل ازیں اسلام آباد سے الیکشن لڑنے کا ٹکٹ دیا گیا تھا۔ تاہم مقامی قیادت کے زبردست احتجاج پر انہیں راولپنڈی کی نشست این اے 61 (راولپنڈی) سے میدان میں اتارا گیا ہے۔ پی ٹی آئی راولپنڈی کے ایک عہدیدار کے بقول کیونکہ یہ عامر کیانی کا آبائی حلقہ نہیں، لہٰذا انتخابی مہم کے سلسلے میں وہ جس گھر میں بھی گئے انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ مقامی پارٹی قیادت نے عمران خان کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ عامر کیانی کو حلقے کے لوگ قبول نہیں کر رہے، لہٰذا یہ سیٹ ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ ہے۔ عہدیدار کے بقول پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، عامر کیانی کے ساتھ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں پارٹنر ہیں۔ اسی بنیاد پر انہیں تمام تر مخالفت کے باوجود ٹکٹ دیا گیا۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق لاہور سے مایوس کن فیڈ بیک کے بعد عمران خان کو پشاور سے بھی مقامی عہدیداران کی جانب سے حوصلہ شکن اطلاعات پہنچائی گئی ہیں۔ پارٹی چیئرمین کو بتایا گیا ہے کہ پشاور میں صوبائی اسمبلی کی 14 سیٹوں میں سے اگر تحریک انصاف 3 نشستیں بھی نکال لے تو بڑی بات ہوگی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے بعض اہم رہنمائوں کا اپنا یہ تجزیہ ہے کہ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی تین سیٹوں میں سے صرف عمران خان اور شاہد خاقان عباسی والی نشست این اے 53 پر سخت مقابلے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق دو روز قبل انتخابی ریلی کے دوران اسد عمر پر فائرنگ کا واویلا بھی محض ڈرامہ تھا۔ یہ ہوائی فائرنگ تھی جو کافی فاصلے پر ہوئی۔ تاہم توجہ حاصل کرنے کے لئے اسے اسد عمر پر فائرنگ قرار دے کر خبر چلوائی گئی۔ اسد عمر این اے 54 اسلام آباد سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔ جبکہ این اے 52 اسلام آباد سے میدان میں اترنے والے پی ٹی آئی امیدوار راجہ خرم شہزاد کی پوزیشن بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ پی ٹی آئی اسلام آباد کے ایک عہدیدار کے مطابق موجودہ صورت حال میں پارٹی قیادت نے ساری توقع غیبی مدد پر لگا رکھی ہے۔

Comments (0)
Add Comment