ابو الخطاب محمد بن احمدؒ کہتے ہیں: ’’ایک دن میں ایک وعدے کی وجہ سے جو کہ مجھ پر لازم تھا، شارع مربد پر مسجد زیادیین جانے کے لیے صبح سویرے نکلا، ہوا تیز تھی اور میرے چند گز کے فاصلے پر ایک آدمی چل رہا تھا۔
جب ہم دار ریاح پہنچے تو ہوا چلنے کی وجہ سے ایک مکان کی چھت اس آدمی پر گر گئی۔ مجھے اس کی موت میں کوئی شک نہیں رہا اور ایک زبردست غبار اٹھا، جس نے مجھے خوف زدہ کر دیا، سو میں لوٹ آیا۔
جب مجھ کو اطمینان ہوا، میں دوبارہ اسی راستے پر ہو لیا۔ حادثے کی جگہ پر پہنچ کر میں نے ملبے کے کچھ حصے کو ہٹایا تو مجھے وہ آدمی نہ ملا اور مجھے بہت حیرت ہوئی۔ پھر میں نے اپنا راستہ طے کیا، یہاں تک کہ میں مسجد زیادیین پہنچ گیا، چنانچہ میں نے وہاں پر کچھ لوگوں کو جمع پایا تو جو کچھ میں نے راستے میں دیکھا تھا، وہ ان کو اس آدمی پر افسوس کرتے ہوئے اور اپنی سلامتی پر شکر کرتے ہوئے، بتایا۔
ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا: ’’اے ابو الخطاب! میں وہی تو ہوں، جس پر چھت گری تھی، میں اس مسجد زیادیین میں ایک آدمی کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے آرہا تھا۔ سو جب مجھ پر چھت گری اور مجھے اپنے اوپر کسی نقصان کا احساس نہ ہوا اور میں نے اپنے آپ کو بالکل صحیح و سالم پایا تو میں نے رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا، لیکن میں حیران تھا کہ اب کیسے نکلوں گا، میں رکا رہا، یہاں تک کہ غبار ہٹ گیا، میں نے صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ملبے میں تکنیکی جگہ ہے۔
چنانچہ میں اس میں سے نکل کر یہاں آگیا۔ رسول اقدسؐ نے سچ فرمایا: ’’تم خدا تعالیٰ کے دین کا خیال رکھو تو خدا تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا۔‘‘ (مسند امام احمد بن حنبلؒ: 1293/1 الرقم، 2664)
مشکل کے بعد ضرور راحت ہے
ایک خاتون خوش حالی میں اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہے:
’’ میرا شوہر محنت مزدوری کی غرض سے ایک شہر کی طرف گیا۔ کچھ دن اس نے کام کیا، پھر اس نے کام کرنا چھوڑ دیا اور بے روزگار ہو کر وہیں مقیم ہوگیا۔‘‘
اس کے بعد ہم پر شدید تنگی آئی، ہم نے اپنے ایک زمین بیچنا چاہی، مگر وہ ہم سے نہیں بکی اور میرے شوہر کی جانب سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی بند ہوگیا، چنانچہ اس کی خیر خیریت کا کوئی پتہ نہیں چلتا تھا۔ یہاں تک ہمیں یہ گمان ہوا کہ شاید اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آچکا ہے۔
چنانچہ میں نے گھر کے سامان کو بیچ بیچ کر اپنے بچوں پر خرچ کرنا شروع کر دیا، حتیٰ کہ گھر میں کوئی چیز نہیں بچی۔
اتنے میں زمین کو کاشت کرنے کا وقت بھی آگیا اور ہمیں بیجوں کی شدید ضرورت پڑی، لیکن ہمارے پاس بیج کا ایک دانہ بھی نہیں تھا کہ کاشت کرتے، قریب تھا کہ زمین بے کار ہو جاتی اور زراعت کا وقت گزر جاتا۔
میں ایک صبح اٹھی۔ میرے اوپر یہ تمام حالات جمع ہو جانے کی وجہ سے بڑا غم تھا۔ تو میں ایک مال دار شخص کی طرف اپنا ایک آدمی بھیجا، جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اگر میں اس سے کچھ رقم طلب کروں گی تو وہ ضرور ہماری مدد کرے گا، تاکہ میں اس سے اپنی اولاد کے لیے سودا سلف خرید لوں۔
اس نے میرے نمائندے سے کہا: ’’میں کیسے ان کو ان کی مطلوبہ رقم دے دوں، حالانکہ ان کی زمین کاشت نہیں کی گئی اور ان کو کوئی غلہ بھی نہیں ملا اور اس کے شوہر کی بھی کوئی خیر خبر نہیں ہے تو وہ مجھے کہاں سے لوٹائیں گی۔‘‘
جب وہ آدمی یہ خبر لے کر آیا تو میں غم سے مرنے لگی اور میں نے اور میرے بچوں نے ایک دن رات کا کھانا نہ کھایا اور اسی حالت میں ہم نے صبح کر دی اور پھر ابھی دوپہر بھی نہ ہوئی تھی کہ میرے شوہر کا خط اس کی خیر خبر کے ساتھ پہنچ گیا۔ خط میں تاخیر کا سبب بھی ذکر کیا تھا۔ اس نے اپنے خط کے ساتھ سو دینار اور کچھ کپڑے جو کہ اس نے ایک مصری تاجر سے حاصل کیے تھے، بھیجے۔ جس کی قیمت پچاس دینار تھی۔ میں نے وہ لے لیے اور زمین کو کاشت کیا اور ہماری حالت بہتر ہوئی۔ (الفرج بعد الشدۃ للقاضی التنوخی: 281/3)