جس دور میں حضور اکرمؐ کو شہید کرنے کے ناپاک منصوبے بن رہے تھے اور مشرکین نے آپ کو شہید کرنے والے کیلئے انعام مقرر کیا تھا، دعثور بن حارث انعام کے لالچ میں آپ کی جان اطہر کے درپے تھا۔ حضور اقدسؐ مکہ مکرمہ سے باہر کسی جگہ زمین پر محو استراحت تھے اور اپنی تلوار درخت سے لٹکا رکھی تھی، ایسے میں دشمن جاں موقع پر پہنچ گیا اور اسے اس ناگہانی کامیابی پر بے حد خوشی ہوئی۔
اس پر اسے اطمینان تو ہوا کوئی محافظ بھی نہیں اور آپ گہری نیند میں ہیں اور وہ بآسانی اپنا کام کرسکتا ہے، مگر تھا وہ بہرحال عرب، سوتے میں شہید کرنا اس نے شیوۂ مردانگی کے خلاف سمجھا، اس نے بڑی درشتی اور رعونت کے ساتھ آپؐ کو جگایا اور بڑے حقارت آمیز لہجے میں پوچھا:
’’اب میری تلوار سے آپ کو کون بچا سکتا ہے؟‘‘
اس ماحول میں کسی کے ہوش و حواس کا خطا ہونا معمولی بات ہے، مگر آپؐ نے بڑے تحمل اور اعتماد سے فرمایا: ’’میرا رب‘‘ یہ جملہ کچھ اس شان اور انداز سے ادا ہوا کہ دعثور پر لرزہ طاری ہو گیا اور تلوار کے دستے پر اس کی مٹھی کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور کانپتے ہاتھوں سے تلوار زمین پر گر پڑی، آپ نے اس کی تلوار اپنے قبضے میں لے کر فرمایا: ’’تم بتاؤ میرے وار سے تمہیں کون بچائے گا؟‘‘ جواب میں گھمبیر خاموشی اور آنکھوں میں التجا کے ڈورے تھے، آپؐ نے کمال شفقت سے فرمایا… ’’جا میں نے تجھے خدا کیلئے معاف کیا‘‘
یہ فرمانا تھا کہ دعثور کے منہ سے بے اختیار کلمہ توحید نکلا اور دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں، جان لینے کا ارادہ کرکے آنے والا اپنا دل و دماغ دے بیٹھا۔
قیام مدینہ اور تعمیر مسجد نبوی
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد حضور سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمدؐ نے مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا… تعمیر کا آغاز ہوا انصار اور مہاجرین نے مل جل کر مسجد بنانی شروع کردی۔ کوئی زمین کھودتا، کوئی پتھر لاتا، کوئی گارا بناتا، انتہائی شوق و احترام کے ساتھ مسجد کی تعمیر ہونے لگی، ہر شخص اپنا فرض سمجھ کر اس کام کو کررہا تھا… انہی کے ساتھ حضرت محمد مصطفیؐ بھی عام صحابہؓ کے لباس میں مزدوروں کے طرح ہاتھ بٹا رہے تھے، خود پتھر اٹھا کر لاتے اور گرد و غبار سے جسم اقدس پر لگ جاتا، صحابہؓ عرض کرتے کہ سرکار! آپ زحمت نہ فرمائیں، آپ کا کام ہم غلامان بارگاہ کرلیں گے، مگر حضورؐ مسکرا کر پتھر اٹھاتے جاتے۔
گردش ماہ وسال یہ منظر دیکھنے کے لئے رک رک جاتی کہ جن کے سر اقدس پر رب تعالیٰ نے عزت و بزرگی کا سب سے بڑا اور قیمتی تاج رکھا تھا، وہ مزدوروں کے لباس میں پتھر اٹھا رہے تھے، جبین سعادت عرق آلود ہو جاتی، آقا اپنے غلاموں کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ دیکھنے میں یہ ایک مسجد کی تعمیر تھی، مگر حقیقت میں یہ ایک درس تھا فرمانرواؤں، کشور کشاؤں اور حاکموں کے لئے کہ حکومت اور دولت کے نشے میں آپے سے باہر نہ ہو جانا۔ انسان کی بلندی سونے چاندی کے ڈھیروں، ریشم و سنجاب کے پردوں، حریر و دیباج کی قباؤں، سر بفلک ایوانوں اور خوشنما باغیچوں میں نہیں ہے۔ نیکوکاری، تواضع، ہمدردی اور ایک دوسرے کی غمگساری میں ہے۔ بندہ اونچے سے اونچا ہوکر بھی بندہ ہی رہتا ہے، خدا نہیں ہو جاتا۔
تکبر و غرور، عبدیت کی نہیں معبودیت کی شان ہے۔ جو بندہ اپنی حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا ذلیل ہو جائے گا، نیکی اور انسانی ہمدردی کے اوصاف نہ ہوں تو تاج پہن کر بھی آدمی ذلیل رہتا ہے۔ لعل و گوہر کی چمک سے صاحب تاج کی عزت میں ذرہ برابر اضافہ نہیں ہو جاتا اور آدمی خدا شناس اور ہمدرد خلائق ہوکر ذات باری تعالیٰ پر بھروسہ کرے تو اس کا سر عزت نیچا نہیں اونچا رہتا ہے۔
یہ مسجد نبوی تھی، سادگی کا بہترین نمونہ، ظاہری آرائش اور اوپری ٹیپ ٹاپ سے دور، دکھاوے اور بناوٹ کی یہاں گنجائش ہی نہ تھی، ناتراشیدہ پتھروں کی دیواریں، کھجور کے ستون اور اسی کے پتوں کی چھت اور فرش پر سنگریزے بچھے ہوئے، مگر یہ مسجد جن سجدوں سے معمور تھی، ان کی رفعت کا اندازہ قدسیوں کا خلوص عبادت اور صدق تہلیل بھی کر نہیں سکتا، حضرت رسول اقدسؐ جہاں قدم رکھ دیں تو… سالہا سجدۂ صاحب نظراں خواہد بود… پھر اس جگہ تو حضورؐ کی پیشانی مبارک کے نشان پائے جاتے تھے، یہاں تک بلندی کا کیا پوچھنا! عرش جھک جھک جاتا ہوگا، جب آپؐ کی جبین پر انوار فرش زمین پر سجدے میں ہوتی ہوگی۔ (بے مثال واقعات)