بندکی سے کئی کوس آگے جب کانپور بمشکل تین کوس رہا ہوگا، نواب آغا تراب علی کو اپنے ذرا آگے ہندوئوں کا ایک قافلہ دکھائی دیا جو بہت آہستہ چل رہا تھا، گویا تھک گیا ہو۔ نزدیک پہنچنے پر معلوم ہوا کہ کوئی پندرہ بیس مرد ہیں، عورتیں اور بچے ایک بھی نہیں۔ بظاہر متوسط طبقے اور مخلوط ذاتوں کے یہ ہندو عموماً ادھیڑ عمر کے یا بوڑھے تھے۔ ان کے کپڑے معمولی، کچھ ملگجے، لیکن پیوند سے عاری تھے اور نہ کہیں سے پھٹے یا مرمت شدہ تھے۔ بغور دیکھنے سے مرزا تراب علی کو اندازہ ہوا کہ ان میں ایک آدھ اچھی ذات کے بھی ہیں، بقیہ شکل و صورت کے اعتبار سے کسان، اہیر، لوہار اور چرواہے وغیرہ اور چال ڈھال، سبھائو، جسمانی حرکات و سکنات کے اعتبار سے نہایت نیک، قاعدے قانون اور رواج سماج کا احترام کرنے والے، مشقت کی روٹی کھانے والے لگتے تھے۔
قافلے کے بزرگ نے تراب علی اور ان کے سواروں کو آتے دیکھ کر اپنے لوگوں کو اشارہ کیا کہ ہٹ جائو، راہ دے دو۔ لیکن جب مرزا تراب علی کا گھوڑا نزدیک آیا تو اس نے بیچ راہ میں گھٹنے ٹیک کر آغا مرزا تراب علی کو سلام کیا۔ ’’سلام مائی باپ۔ سرکار کا اقبال بلند رہے‘‘۔
اس کا لہجہ نہایت شائستہ، انکسار اور لجاجت سے بھرپور تھا، گویا اسے حاکمان و رئوسا سے اکثر سابقہ پڑتا رہا ہو۔ آغا مرزا تراب علی کا دل کچھ پسیجا، لیکن انہوں نے درشت اور متفاخر لہجے کو موقع کی ضرورت جانتے ہوئے سلام کا جواب دیئے بغیر ڈپٹ کر کہا۔ ’’کون ہو تم لوگ۔ اور کیوں ہمارا راستہ روکھے کھڑے ہو؟‘‘۔
’’ آپ کا راستہ روکیں یہ ہماری مزال نہیں سرکار۔ ہم جاتری ہیں، بندکی سے قنوج دیوی درشن کو جا رہے ہیں‘‘۔
’’ تو جائو‘‘۔ آغا مرزا تراب علی نے کڑک کر کہا۔ ’’ہٹو ہماری راہ نہ کاٹو‘‘۔
اب بوڑھا اور بھی ملتجیانہ اور نرم لہجے میں بولا ’’حضور ہم اکیلے ہیں، کوئی نفری احدی ساتھ نہیں، کوئی بٹ مار دبوچ لے تو بچانے والا کوئی نہیں‘‘۔
اتنی دیر میں ایک دوسرا بوڑھا سامنے آ گیا۔ اس نے اپنے ساتھی سے بھی کچھ بڑھ کر میٹھی بولی میں کہا ’’جی ہاں عالی جاہ، ہم میں کچھ بمار اور کمجور بھی ہیں۔ سرکار عالی کی چھتر چھایا مل جاتی تو ہماری جاترا بے کھٹکے پوری ہو جاتی‘‘۔
آغا مرزا تراب علی نے دونوں بوڑھوں کو غور سے دیکھا۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی اور ان کے بدن سمٹے سکڑے ہوئے فدویانہ بیچارگی کی تصویر تھے۔ لیکن مرزا تراب علی کو یہ بھی محسوس ہوا کہ پیدل قافلے والے کسی آہستہ، غیر محسوس طریقے سے کچھ اس قدر آگے آ گئے تھے کہ ان کے قافلے کے گرد ڈھیلا ڈالا سا حلقہ بن گیا تھا۔ ان کے بدن میں ہلکی سی سنسنی دوڑ گئی۔ ’’یہ لوگ ٹھگ تو نہیں؟‘‘۔ ان کے دل میں یہ سوال تیزاب کی بوند کی طرح جلتا جلتا اتر گیا۔ ’’نہیں، ٹھگ بھلا کیا ہوں گے، بالکل بے ضرر معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن شاید وہ حلقہ اب کچھ اور بھی قریب آ گیا تھا۔ انہوں نے منیر خان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ بے چینی کے ساتھ بے یقینی بھی تھی۔ منیر خان آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ لیکن ممکن ہے یہ میرا وہم ہو، آغا تراب علی نے اپنے دل میں کہا۔ اچانک ان کی بائیں آنکھ کے گوشے کی بصارت کے انتہائی حدود پر انہیں ایک نوجوان شخص کی جھلک دکھائی دے گئی۔ دوسرے راہگیروں کے برخلاف وہ اپنا بدن چرائے ہوئے نہ تھا اور اس کی آنکھوں میں کچھ ایسی چمک تھی، جو سفاک ہونے کے ساتھ ساتھ توقع سے بھرپور تھی، جیسے کسی اژدہے نے اونگھتا ہوا خرگوش دیکھ لیا ہو۔ انہیں اچانک کچھ ڈر محسوس ہوا۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ پیڑوں کے پچھلے جھنڈ سے ایک کوا کائوں کائوں کرتا ہوا گزرا۔ آغا تراب علی نے محسوس کیا کہ اہل قافلہ کی آنکھیں گو کہ زمین کی طرف جھکی ہوئی ہیں، لیکن درحقیقت سب اس کوے کو دیکھنے کے لئے تجسس میں ہیں کہ کوا کسی شاخ پر اترتا ہے یا اڑ جاتا ہے۔ منیر خان ہلکے سے کھنکھارا۔ شاید اس نے لب کشائی کی جرات کر لی تھی۔ لیکن ابھی اس نے کچھ کہا نہ تھا کہ کوا باآواز بلند پکاراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
کوے کے گزرتے ہی اہل قافلہ کے چہرے بشرے سے کچھ مایوسی مترشح ہوئی، گویا انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ ان نواب صاحب کا تحفظ ہمیں نصیب نہ ہوگا، ہمیں اپنی راہ لگنا چاہئے۔ لیکن یہ مایوسی کسی اور بات کی غماز تو نہیں؟ آغا تراب علی نے دل میں سوچا۔ ایسا تو نہیں کہ یہ واقعی ٹھگ ہوں اور میرے سخت طرز گفتگو سے وہ سمجھ گئے ہوں کہ میں چھٹک گیا ہوں اور اب مردار خواروں کا شکار نہ بن سکوں گا؟ پیدل قافلے والوں کا حلقہ ان کے گرداگرد کچھ غیر محسوس طور پر ڈھیلا ہو گیا تھا، لیکن کوئی اپنی جگہ سے ہٹنے یا ہلنے کی طرف مائل نہ لگتا تھا۔
’’سرکار‘‘۔ منیر خان نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا۔ ’’سرکار، نکل چلیں‘‘۔
منیر خان کی آواز نے آغا تراب علی کے دل پر گویا بانگ درا کا اثر کیا۔ وہ چونکے اور بھرائی ہوئی آواز میں بولے ’’ایں، ہاں ٹھیک ہے‘‘۔ پھر انہوں نے گلا صاف کر کے سامنے والے بوڑھوں سے کڑک کر کہا ’’چلو ہٹو تم سامنے سے‘‘۔ دونوں بوڑھوں کے چہرے پر کچھ ایسا تاثر تھا جسے وہ صاف سمجھ نہ سکے، لیکن یہ ضرور تھا کہ راستہ دینے کے لئے ان بظاہر مسکین بوڑھوں کی طرف سے کچھ خاص عجلت بھی نہ دکھائی دیتی تھی۔ آغا تراب علی نے اپنا گھوڑا ایک قدم پیچھے ہٹا کر چابک ہوا میں لہرایا اور گھوڑے کی پسلیوں کو رانوں میں مضبوط داب کر کہا ’’ اڑ چل بیٹے!‘‘۔ گھوڑے نے گردن اٹھائی، دانت عریاں کئے، سیاہ گھنی ایال ہوا میں پرچموں کی طرح لہرائی، اگلے دونوں پائوں سمیٹ کر اس نے کمر کی پوری قوت کے ساتھ اپنا بدن آگے کو ہیل دیا۔ اگلے پائوں سمٹ کر پیٹ سے تقریباً لگے ہوئے، پچھلے پائوں سکڑ کر زیر کمر، بوڑھے ابھی سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ کیا بچائو کریں، اور گھوڑے نے اپنے سوار کو لئے ہوئے برف کے گالے کی سی خاموشی کے ساتھ کئی گز آگے پہنچا دیا۔ گھوڑے کے گزرنے کی سنسناہٹ اور پھر اس کے زمین پر اترنے کی تکان سے خوف کھا کر بوڑھے زمیں بوس تھے اور ان کے اہل قافلہ کا حلقہ تیلیوں کی طرح بکھر گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں آغا مرزا تراب علی اور ان کے ساتھی غبار اور پھر طوالت فاصلہ کے سبب نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ (جاری ہے)