عباس ثاقب
میں نے لاجو جی کو کہا ’’مافی دی کوئی لوڑ نئیں بھرجائی، مینوں پتا اے، ویاہ دا گھر اے!‘‘۔ میری بات سن کر وہ خوش ہوگئی۔ ’’ہاہا… تُوں کنا چنگا منڈا اے، تُوں مینوں بھرجائی نہ بلایا کر… رب نے مینوں کوئی ویر نئیں دِتّا، اج تو تُو میرا ویر اے! سمجھیا؟‘‘۔ (ہائے، تم کتنے اچھے لڑکے ہو، تم مجھے بھابھی کہہ کر نہ بلایا کرو۔ رب نے مجھے کوئی بھائی نہیں دیا، آج سے تم میرے بھائی ہو! سمجھے؟)
لاجو کے لہجے میں اتنا پیار، بلکہ ممتا تھی کہ بے ساختہ میرا دل بھرآیا۔ اس سادہ لوح عورت نے یکایک مجھے کراچی میں منتظر میری بہن تہمینہ یاد دلادی تھی۔لا جو نے پلک جھپکتے میں میری جذباتی کیفیت محسوس کرلی۔ اس نے میرا سر اپنے شانے سے لگالیا۔ میں کوشش کے باوجود اپنے آنسو نہ روک سکا۔ اس نے مجھے جی ہلکا کرنے کا پورا موقع دیا۔ غنیمت یہ رہا کہ اس دوران ملازم غالباً اس کے اشارے پر وہاں سے جا چکا تھا۔
لاجو جی نے مجھے اپنے سامنے بٹھاکر ناشتہ کرایا اور میرے منع کرنے کے باوجود بھوک سے کچھ زیادہ ہی کھلادیا۔ اس دوران میں وہ مجھ سے میرے گھر والوں کے بارے میں پوچھتی رہی۔ میں نے برجستہ کہانی تراشتے ہوئے بتایا کہ میرا تعلق لاہور سے ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت میں ہنگاموں اور قتل و غارت کے دوران لاہور سے امرتسر کے لیے روانہ ہونے والے اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے راستے میں کہیں بچھڑ گیا تھا اور آج تک انہیں تلاش نہیں کر پایا ہوں۔ رب جانے، وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اس دوران پنجاب اور دلّی سمیت گرد و نواح کے مختلف شہروں میں بھٹکنے کے بعد مایوس ہوکر تنہا زندگی گزارنے پر قانع ہوگیا ہوں۔ تنگوالی میں کوئی مستقل ٹھکانا نہیں ہے۔ بلکہ ایک عارضی سی ملازمت کے سلسلے میں وہاں میرا قیام ہے۔
مجھے اس نیک دل عورت سے دروغ گوئی کرتے ہوئے شرمندگی تو محسوس ہوئی، تاہم میری توقع کے عین مطابق وہ میری درد بھری کہانی سے بہت متاثر ہوئی۔ اس نے اصرار کیا کہ میں نہ صرف اس کے جیٹھ کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے آؤں گا، بلکہ ان کے گھر فرید کوٹ بھی وقتاً وقتاً آتا رہوں گا۔ میں نے وعدہ کرلیا تو وہ خوش ہوگئی۔
’’ویر تُوں تھوڑا ٹائم ہور اڈیک کرلے۔ میں ہُنی جاکر مہندر نوں جاکے تہاڈے کول بھیجنی آ!‘‘۔ اس نے جاتے ہوئے کہا۔ اس پر میں نے اسے منع کیا اور کہا کہ تنگوالی یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اس پر اس نے کچھ سوچ کر تفکر بھرے لہجے میں کہا ’’میری گل من لے آکاش ویر، جاگن بعد مہندر جیپ اُتے ویاہ دا سدا پُچان نکلے گا، تُو اوہدے نال تنگوالی ٹُر جانا، تُہاڈا کلیا باہر جانا ٹھیک نئیں!‘‘۔ (میری بات مان لو آکاش بھائی، بیدار ہونے کے بعد مہندر اپنی جیپ پر شادی کے دعوت نامے تقسیم کرنے نکلے گا۔ آپ اس کے ساتھ تنگوالی چلے جانا۔ آپ کا اکیلے باہر جانا ٹھیک نہیں ہے)۔
اس کے لہجے میں موجود اصرار اور تفکر نے مجھے چوکنا کر دیا۔ میں نے کہا کہ مجھے اس کی بات ماننے میںکوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن میں اصرار کی وجہ ضرور جاننا چاہتا ہوں، خصوصاً اس جملے کا مطلب کہ میرا اکیلے باہر جانا ٹھیک نہیں ہے۔
لاجو نے مجھے جو بتایا وہ مجھے فکر و پریشانی کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے کافی تھا۔ اس کے مطابق کل رات جمی محفل میں اس نے سنا تھا کہ میزبان سردار یعنی ہرمندر اپنے بھائی کو بتارہا تھا کہ بٹھنڈا اور اس کے گرد و نواح کے قصبوں اور دیہاتوں میں پولیس والوں نے پردیسیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ جانے ان کے دماغ میں کیا خناس سما گیا ہے۔ بلا وجہ مسافروں اور راہ گیروں کو پکڑ کر تھانے چوکی لے جاتے ہیں اور پھر ان سے بے رحمانہ پوچھ گچھ کرنے کے بعد علاقے کے کسی سرکردہ شخصیت کی ضمانت پر چھوڑتے ہیں۔ ہرمندرسنگھ اظہارِ تشویش کر رہا تھا کہ پولیس والے دور دراز علاقوں سے شادی میں آنے والے ان کے مہمانوں سے بھی ایسی بدسلوکی کر سکتے ہیں۔ دونوں بھائی اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے سر جوڑے بیٹھے ہوئے تھے۔
میں نے اس وقت تو لاجو جی کی فراہم کردہ اطلاع پر کوئی نمایاں ردِ عمل ظاہر نہیں کیا، تاہم یہ سب جان کر میری تشویش کی انتہا نہ رہی تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے لاجو جی کو بھیج کر مجھے مصیبت میں پھنسنے، بلکہ سیدھا موت کے منہ میں جانے سے بچالیا تھا۔
لیکن پھر میں یہ سوچ کر اندیشوں میں ڈوب گیا کہ میری زندگی اور آزادی کو لاحق خطرات تو اب بھی سر پر لہرا رہے ہیں۔ مہندر مجھے اپنی جیپ میں بحفاظت تنگوالی تو ضرور پہنچادے گا، لیکن وہاں کون سی پناہ گاہ میری منتظر ہے؟ ادھر ادھر بھٹکتا ہوا میں باآسانی پولیس والوں کی شک بھری نظروں کا نشانہ بن جاؤں گا۔ میں گرداس سے چھینے گئے سروس ریوالور سمیت ان کے ہتھے چڑھ گیا تو میرا پول کھلنے میں چند منٹ بھی نہیں لگیں گے۔ اس بار وہ مجھے فرار ہونے کا موقع ہرگز نہیں دیں گے۔ (جاری ہے)