بھارت میں 2کروڑ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور

سدھارتھ شری واستو
بھارت میں غربت کے شکار دو کروڑ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ بھٹوں، کانوں، کھیت و باغات، فیکٹریوں اور گھروں میں کام کرنے والے افراد کو اجرت ادا نہ کر کے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ بیگار مشقت بھگتنے والوں میں خواتین اور کمسن بچے بھی شامل ہیں۔ ’’ورلڈ گلوبل انڈیکس‘‘ کی جانب سے ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دور جدید میں بھی انسانوں کو غلام بنائے جانے کا سلسلہ موقوف نہیں ہوا ہے اور اس وقت بھی دنیا بھر میں جبری مشقت، نا مساعد حالات اور بنیادی سہولیات سے محرومی، کم تر درجہ کی ادائیگیوں کے سبب غلامی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن عالمی سطح پر اس سلسلہ میں ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔ عالمی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت چار کروڑ سے زیادہ انسان ’’غلام‘‘ ہیں اور ان سب کی نصف تعداد بھارت میں ہیں، جن کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ بھارتی صحافی اور سماجی تجزیہ نگار آنند بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ غلام بنائے جانے والے بھارتیوں کی تعداد دو کروڑ سے بھی کہیں زیادہ ہے، کیونکہ یہ رپورٹ محض ان افراد کا احاطہ کرتی ہے جن کو انفرادی حیثیت میں غلام بنایا گیا ہے۔ مثلا ً کھیتوں، باغات اور اینٹوں کے بھٹوں اور معدنیات کی کانوں، گھروں بنگلوں اور کاروباری مراکز پر کروڑوں انسان اور بالخصوص کم سن بچے غلام بنا دیئے گئے ہیں۔ اگر اجتماعی حیثیت میں غلام بنائے جانیوالے افراد کا ذکر کیا جائے تو یہ تعداد دس کروڑ سے زیادہ بنتی ہے اور اس میں بھارتی ریاستوں میں موجود نچلی ذات کے ہندوئوں کا ذکر بہت اہمیت کا حامل ہے، جن کی نا تو سماجی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نا ہی ان کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔ ان کیلئے پانی کے کنویں الگ کردیئے گئے ہیں اور ان کو مندروں میں بھی نہیں آنے دیا جاتا۔ یہ پورا منظر نامہ دور جدید کی غلامی ہے، جو دلچسپ پیرائے کے مطابق بھارت میں زمانہ قدیم سے جاری ہے۔ عالمی تنظیم ’’واک فری فائونڈیشن‘‘ نے اپنی رپورٹ میں دنیا بھر کے 167 ممالک میں دور جدید کی غلامی، غلاموں اور غلام بنائے جانے والی ذہنیت کا اعتراف کیا ہے، جس میں اریٹیریا اور شمالی کوریا کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کو بھی دور جدیدکی غلامی کا مرکز ٹھہرایا گیا ہے، جہاں دو کروڑ سے زیادہ انسانوں سے جبری طور پر مشقت کرائی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جاپان، آسٹریلیا، فرانس، نیدر لینڈ، جرمنی، برطانیہ سمیت امریکا کو بھی دور جدید کی غلامی کے مراکز میں شمار کیا جا رہا ہے۔ واک فری فائونڈیشن کی ڈائریکٹر ریسرچ ’’فیونا ڈیوڈ ‘‘نے بتایا ہے کہ کمیونسٹ ملک شمالی کوریا میں انسانوں کو غلام سمجھا جانا اور انتہائی کم معاوضہ کے بعد بھاری کام لئے جانے کی تصدیق ہوئی ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شمالی کوریا میں ہر دس میں ایک انسان کو حکومت اور حکومتی اداروں نے غلام بنایا ہوا ہے۔ رپورٹ میں افریقی ممالک برونڈی، اریٹیریا، وسطی افریقی جمہوریہ، شمالی کوریا ،افغانستان اور بھارت کے نام اولین ممالک میں شامل کئے گئے ہیں، جہاں انسان غلام بنا دئے گئے ہیں اور حکومتیں خاموش ہیں۔ بھارتی جریدے ٹائمز آف انڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں انسانوں کو غلام بنائے جانے کا سلسلہ کافی پرانا ہے، لیکن حکومت اس سلسلہ میں انڈیکس کی رپورٹ کو غلط قرار دے رہی ہے۔ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے کہا ہے کہ دنیا میں دور جدید کی غلامی کے مراکز میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔ جہاں کروڑوں انسانوں کو جبری مشقت سے جوڑا گیا ہے، جبکہ چھوٹی عمر کے بچوں اور نوجوانوں سمیت خواتین اور بچیوں سے کھیتوں،کارخانوں، بھٹوں سمیت گھروں میں بلا معاوضہ کام لیا جاتا ہے۔ بھارت میں جسم فروش صنعت میں ایک کروڑ سے زیادہ خواتین اور کم سن بچیوں کو ان کی مرضی کے بغیر شامل کیا گیا ہے، جس کا اعتراف ویمن فائونڈیشن انڈیا سمیت انسانی حقوق کے عالمی و علاقائی ادارے بھی کرتے ہیں۔ ممبئی، دہلی، کولکتہ سمیت متعدد بڑے شہروں میں بنگلہ دیشی، نیپال اور بھوٹان سے بھی لڑکیوں کو اغوا کرکے بھارت کے ان اڈوں میں لایا جاتا ہے۔ بھارتی انسانی حقوق کے ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت میں پورے پورے خاندانوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا ہے، جونا صرف سالہا سال غلام رہتے ہیں بلکہ ان کی اپنی اگلی نسل بھی غلامی کے ماحول میں جوان ہو جاتی ہے۔ امریکی لکھاری کورین ابراہام نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت میں کم سن لڑکیوں اور لڑکوں سمیت جوانوں اور بوڑھوں کو بھی غلام بنانے کی اشکال موجود ہیں۔ واضح رہے کہ واک فری فائونڈیشن ایک آسٹریلوی ارب پتی اینڈریو فارسٹ نے 2012ء میں قائم کی تھی جس کا بنیادی مقصد دور جدید کی غلامی اور اس کی تمام شکلوں کا خاتمہ تھا۔ عالمی تنظیم کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں اگرچہ آبادی کا کوئی یقینی تخمینہ نہیں ہے لیکن ایک اندازے اور حکومتی اعداد و شمار کی رو سے اس وقت بھارت کی آبادی ایک ارب پچیس کروڑ ہے، جس میں 30 کروڑ انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں اور ان میں دو کروڑ انسان غلام بنائے گئے ہیں جن کو اپنی زندگی کے بارے میں دوسروں کے فیصلوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment