فالودے کی دکان سے فارغ ہو کر میں سیدھا مسجد سعدی میں برائے نماز ظہر چلا گیا۔ مگر یہ دریافت کر کے خاصا تعجب اور مایوسی ہوئی کہ وہاں کوئی جائے وضو یا وضوخانہ نہیں تھا۔ نہ ہی کسی قسم کی کوئی نماز ظہر کی تیاری تھی۔ وہاں موجود ایک دو صاحبان سے جب زیادہ پتہ کیا تو انہوں نے مسجد کے گیٹ کے ساتھ ہی پانی کا ایک نلکا دکھا دیا، جو مسجد کی ایک دیوار سے ذرا ہٹ کر اور زمین سے کوئی دو فٹ اوپر لگا ہوا تھا۔ مگر شاید وہ صرف ضرورت مند لوگوں کے واسطے پانی حاصل کرنے کے لئے یا پائپ لگا کر مسجد کے پودوں کو پانی دینے کیلئے تھا کہ اس کے ساتھ وضو کرنے کیلئے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ مجبوراً میں نے کھڑے کھڑے ہی ذرا جھک کر اسی نلکے سے وضو کر لیا اور پھر مسجد میں جا کر اکیلے ہی نماز ظہر ادا کی کہ وہاں جماعت ہونے کے کوئی آثار نہ تھے۔ شاید ظہر اور عصر کی جماعتیں ایک ہی وقت میں ہوتی ہوں اور وہ وقت عصر کا وقت ہو۔ شیراز کی اکثر دوسری مساجد میں جماعت سے نمازیں خاصی باقاعدگی سے ہوتی ہیں اور ان میں نمازی بھی خاصی تعداد میں ہوتے ہیں۔
مزار سعدی ایک بڑے اور پر فضا باغ کی مانند ہے۔ ہر طرف سبزہ، ہر طرف گہرے سبز درخت اور ہر طرف پھولوں کی خوشبو سے معطر تازہ نسیم کے جھونکے۔ اس کا مقابلہ پاکستان میں واقع کسی بزرگ کے مزار سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں مزار کے احاطے میں داخل ہوتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ گویا میں ایک پرنور، پر فضا، پر سکون اور پاک حصار میں آگیا ہوں۔ بیرونی گیٹ کے ساتھ ہی دائیں جانب ایک بڑا سبز کاہی بورڈ لگا ہوا تھا، جس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ ’’آرامگاہ شیخ اجل مشرف الدین مصلح بن عبداللہ سعدی‘‘ (The Mausleum of Saadi)۔
اندرونی گیٹ سے پہلے داہنے ہاتھ پر ایک گفٹ شاپ تھی جس کو ایک خوش شکل، خوش پوش اور خوش مزاج نوجوان چلا رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو بڑے تپاک سے جواب دیا اور اٹھ کر ہاتھ ملایا۔ ان کے دریافت کرنے پر جب میں نے بتایا کہ پاکستان سے حاضر ہوا ہوں تو بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ جب میں ان کی دکان کے سامنے پہنچا تو وہ اپنی دکان پر نہ تھے بلکہ مزار سعدی کے سامنے پھولدار پودوں کی کیاری کے ساتھ لگی ہوئی فولادی زنجیر پر بڑے اچھے موڈ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ تقریباً آٹھ سال کی ایک پیاری سی بچی کھڑی تھی۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ کیا میں اس بچی کی تصویر اتار سکتا ہوں تو وہ بولے کہ کیوں نہیں۔ پھر وہ اس بچی سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ یہ پاکستانی مہمان تمہاری تصویر اتارنا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس بچی نے پہلے میری طرف دیکھا اور میرے کیمرے کی طرف۔ اس کے بعد نہ جانے اسے کیا ہوا کہ سخت خوف کے آثار اس کے چہرے پر نمودار ہوئے اور وہ چیخ کر دور بھاگ گئی۔ صاحب دکان نے اسے بہت روکا، مگر اس نے ایک نہ سنی۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ کوئی بات نہیں، میں اس بچی کی جگہ آپ کا فوٹو لئے لیتا ہوں، اگر آپ کو اعتراض نہ ہو۔ وہ فوراً پوز بنا کر تیار ہوگئے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ جناب، یہ تو آپ بڑا بناوٹی پوز ہے۔ میں آپ کی اسی بے ساختی اور قدرتی پوز میں تصویر بناؤں گا کہ جس پوز میں آپ پھولوں کی کیاری کی زنجیر پر میرے یہاں آنے سے پہلے تشریف فرما تھے۔ وہ اس پر راضی ہوگئے اور تقریباً اسی انداز میں دوبارہ بیٹھ گئے۔
اس کے بعد میں نے ان سے درخواست کی کہ اب ایک تصویر آپ میری بنادیجیے۔ اس پر بھی وہ راضی ہوگئے۔ میں نے کیمرہ ان کے ہاتھ میں دیا، اس کا آپریشن سمجھایا اور خود مزار سعدی کی زیریں سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گیا۔ ان صاحب نے میری تصویر اتار دی۔ میں نے ان صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ سیڑھیاں چڑھ کر جوتے اتارے اور پھر مزار کے کشادہ بیرونی پلیٹ فارم اور نیلے گنبد کے نیچے سے گزر کر اصل مزار تک جا پہنچا، جو باہر سے نظر نہیں آتا۔ وہاں اور بھی مقامی اور خارجی سیاح اور زائرین آجا رہے تھے، مگر یہ بات مجھے خاصی عجیب لگی کہ کوئی بھی اپنے جوتے نہ اتار رہا تھا۔ یقیناً پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان زائرین کو یہ بات بڑی عجیب لگتی ہوگی۔ ایک اور بات جو میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ شیخ سعدی اور حافظ شیرازی ہر دو کے مزار پر روزانہ لاتعداد زائرین آتے ہیں۔ ان زائرین میں عام ایرانی زائرین بالخصوص طلبہ بھی ہوتے ہیں اور خارجی زائرین بھی۔ اس خارجی زائرین میں وسطی ایشیا کی ریاستوں کے لوگوں کی بالخصوص تاجکستان اور ازبکستان والوں کی اکثریت ہوتی ہے اور اس اکثریت جوانوں کی ہوتی ہے۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ شیخ سعدی کے مزار پر حاضری دینے والے زائرین میں واضح اکثریت مرد حضرات کی ہوتی ہے۔ جبکہ حافظ شیرازی کے مزار پر حاضر ہونے والے زائرین میں بڑی واضح اکثریت خواتین کی اور بالخصوص جوان خواتین کی ہوتی ہے۔ میں نے ایک مقامی صاحب سے اس کی وجہ معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ صدیوں سے مسلم خواتین میں دیوان حافظ سے فال نکالنے کا اور ان کے مزار پر آکر ان کے واسطے سے اللہ تعالی سے اپنی مرادیں پوری کردینے کی دعائیں مانگنے کا رواج ہے۔ تو جب کسی خاتون کی صحیح فال نکل آتی ہے تو وہ شکرانے کے طور پر مزار پر حاضری دیتی ہے، فاتحہ پڑھتی ہے اور حسب توفیق غربا میں خیرات تقسیم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ شیخ سعدی اور حافظ شیرازی کے مزاروں پر حاضری دینے والی تمام خواتین کالے برقعے زیب تن کیے باپردہ ہوتی ہیں۔ میں نے شیخ سعدی کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھی اور کچھ دیر اس مرد نیک کے صدقے اللہ تعالی سے اپنے علم میں اضافے اور اپنے گھر والوں کے حق میں دعائیں مانگیں۔ بعدازاں مزار کے احاطے میں گھوما پھرا اور اس کے جغرافیے کا جائزہ لیا۔ مزار کے ساتھ ہی ایک خوبصورت اور صاف پانی سے بھرا حوض ہے۔ اس کے ساتھ کیا خصوصیات ہیں یا اس کا کیا پس منظر ہے، یہ تو مجھے معلوم نہ ہوسکا مگر اس کی تہہ میں زائرین کے ڈالے ہوئے ایرانی کرنسی کے سکے اور صرف سکے ہی نہیں بلکہ کاغذی کرنسی بھی میری اور دیگر زائرین کی توجہ کا مرکز تھے۔ دھاتی سکوں کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب اس حوض کا پانی بدلا جاتا ہوگا تو انہیں مزار کی انتظامیہ اپنی تحویل میں لے لیتی ہوگی اور وہ کسی کار خیر میں لگ جاتے ہوں گے۔ لیکن کرنسی نوٹوں کی بات سمجھ نہ آئی۔ وہ تو پانی میں گھل کر ضائع ہوجاتے ہوں گے۔ مگر اس وقت تک تو تمام کرنسی نوٹ حوض کہ تہہ میں سوائے زیر آب ہونے کے ٹھیک ٹھاک حالت میں تھے اور ان کی لکھائیاں پڑھی جاتی تھیں۔ شاید حوض کا پانی نالی سے باہر نکال کر ان نوٹوں کو کسی پتلے اسٹیل اسکریپر سے احتیاط سے اٹھا کر سکھا لیا جاتا ہوگا۔ و گرنہ یہ سوچنا مشکل ہے کہ صدقے کے بکسوں کے ذریعے ایک ایک ریال جمع کرنے والے انتہائی دانشمند اور دور اندیش حکومت اسلامی جمہوریہ ایران حوض میں ڈالی جانے والی ان رقوم کو ضائع ہوجانے دیتی ہوگی۔ (جاری ہے)