کئی کوس کی دوڑ کے بعد سانسیں برابر کرنے اور گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے وہ ایک کنویں پر رکے تو منیر خان نے آہستہ سے کہا: ’’وہ لوگ ٹھگ تھے، سرکار… یہاں زیادہ نہ ٹھہرتے تو اچھا تھا‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ تراب علی کی ضد پھر عود کر آئی۔ ’’یہاں ٹھہرنے میں کیا قباحت ہے؟ اب ٹھگ یہاں کہاں؟‘‘۔
’’جناب، یہ لوگ شکار کو تاک کر اس پر اپنا پنجہ قابض کرنے کے لئے آگے پیچھے دو تین ٹکڑیوں میں بٹ کر واردات کرتے ہیں۔ کچھ عجیب نہیں کہ ان کی ایک ٹکڑی یہیں کہیں آگے گھات میں ہو‘‘۔
’’یہ کیا فضول بیان ہے۔ تم لوگ چرواہے ہو یا گھسیارے ہو۔ بے وجہ ڈرے جاتے ہو اور بے موت کے مرے جاتے ہو‘‘۔
’’جناب‘‘۔ ایک بوڑھے برجھیت نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’میں ان راہوں سے پہلے بھی گزرا ہوں۔ وہ سامنے پانڈو ندی ہے۔ میں نے اکثر سنا ہے کہ ٹھگان اسی ندی کے گھاٹ میں چھپ کر گھات لگاتے ہیں اور واردات کر کے قریبی گائوں میں چھپ جاتے ہیں۔ گائوں یہاں سے آدھا کوس بھی نہیں ہے‘‘۔
’’خیر میرا بھی ارادہ یہاں کوئی رات گزارنے کا نہیں تھا۔ چلو آگے بڑھو‘‘۔
شام ہوتے ہوئے وہ کانپور پہنچے، لیکن مرزا تراب علی کے قافلے کو وہاں ان کی حیثیت کے موافق کوئی سراے نہ ملی۔ اس لئے وہ تیز دھاروے کے طور پر چلتے ہوئے، بٹھور اور پھر بلہور پہنچے، جہاں انہوں نے پڑائو کیا۔ سردیوں کا موسم، دریائے گنگا بالکل پاس، لہٰذا ٹھنڈک اور کہرا دونوں غضب کے تھے۔ لیکن مرزا تراب علی نے جلد از جلد وہاں سے کوچ کیا۔ دن ڈھلنے کے کچھ پہلے قنوج کوئی ڈھائی کوس رہ گیا تھا۔ ایک مناسب سرائے میں رات گزار کر اگلی صبح کو انہوں نے قنوج کے لئے کوچ کیا۔ وہ تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے انہیں کوئی بیس بائیس مسلمانوں پر مشتمل ایک پیدل قافلہ ملا۔ ان میں بھی کوئی عورت یا بچہ نہ تھا، لیکن وہ لوگ شکل سے انتہائی نیک طبع اور عابد و زاہد معلوم ہوتے تھے۔ اکثروں کی داڑھیاں لمبی، لبیں کتری ہوئی، پاجامے اونچے، اور سروں پر گول یا چوگوشیہ ٹوپیاں تھیں۔ ان میں سے ایک ادھیڑ شخص نے گزشتہ دن کے فاصلے والے بوڑھے کی طرح بیچ سڑک میں ٹھہر کر مرزا تراب علی کو شرعی سلام کیا: ’’السلام علیکم سرکار، جناب کس طرف تشریف لے جاتے ہیں‘‘۔
مرزا تراب علی کو اس شخص کے سبھائو، صاف ستھرے اگرچہ موٹے جھوٹے کپڑوں، اور پیشانی پر سجدے کے نشان نے از حد متاثر کیا۔ انہوں نے یہ بھی نہ غور کیا کہ باقی اہل قافلہ کسی خاص ترتیب سے سڑک کے درمیان ٹھہر گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے پسند نہ کیا کہ سر راہ رک کر کسی معمولی اہل حرفہ قسم کے نفر سے بات کریں۔ ’’شرفا راستے میں رک کر بات نہیں کرتے۔ چلو بڑھو، چلتے پھرتے نظر آئو‘‘۔
’’ عالی جاہ، ہم غریب کاریگر مسلمان، ہمارے پاس کوئی دولت نہیں کوئی طاقت نہیں اور یہ راستہ بڑے جوکھم کا ہے۔ ہم کب سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ اللہ آپ جیسا کوئی جری رئیس زادہ بھیج دے تو اس کے دامن سے لگ کر ہم بھی پار گھاٹ لگ جائیں‘‘۔
مرزا تراب علی نے محسوس کیا کہ منیر خان اور ان کے دوسرے نوکروں کے دل و ذہن میں کچھ شدید تنائو ہے اور یہ تنائو ان کے بدن کی حرکات و اشارات سے بھی ظاہر ہے۔ وہ دل ہی دل میں کچھ جزبز ہوئے کہ یہ کمبخت بے وجہ مرے جاتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ بھی احساس تھا کہ گزشتہ دن کے پیدل راہگیروں اور ان لوگوں میں کچھ پراسرار سی مماثلت ہے۔ انہوں نے اپنی کمر میں بندھے ہوئے طمنچے پر ہاتھ ڈالا اور کہا: ’’تو کیا تم نے ہمیں اپنا محافظ مقرر کیا ہے؟ تمہارے اپنے میٹ اور چوہدری کہاں ہیں؟‘‘۔
ادھیڑ عمر کے مسافر نے طمنچے پر ہاتھ جاتا دیکھ کر زمین کو چھو کر سلام کیا اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر گڑ گڑاتے ہوئے کہا: ’’سرکار بہادر ہم کمپو میں جان کمپنی کے ملازم ہیں۔ تھوڑی رخصت ملی ہے تو قنوج اپنے گھر جا رہے ہیں۔ ہم کاریگر ہیں، چوٹٹے چوہڑے نہیں ہیں‘‘۔
اس شخص کے لہجے میں اس قدر مسکنت تھی کہ مرزا تراب علی کو اپنا دل پسیجتا ہوا معلوم ہوا۔ لیکن انہیں بوڑھے برچھیت منے خان کی بات یاد آ گئی کہ ٹھگ لوگ کئی ٹکڑیوں میں آگے پیچھے بٹ کر مسافروں کا شکار کرتے ہیں۔ اتنی دور تک بھلا ان کا دورہ کیا ہوگا، لیکن احتیاط شرط ہے۔ انہوں نے دل میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے، لیکن ہمارا تمہارا ساتھ نہیں۔ چلو ہٹو نہیں تو گولی مار دوں گا‘‘۔
نہایت مایوسی کے لہجے میں اور پست، ہاری ہوئی سی آواز میں ’’جو مرضی مالک کی‘‘ کہہ کر ادھیڑ عمر کے آدمی نے راستہ چھوڑ دیا اور اپنے قافلے والوں میں مل گیا۔
مرزا تراب علی کے اہل قافلہ نے آگے بڑھتے ہی یک زبان ہو کر کہا ’’سرکار کی عقل و فراست کے قربان جایئے۔ سرکار نے فوراً پہچان لیا کہ وہ لوگ ٹھگ ہیں‘‘۔
’’ہونہ، ٹھگ بھلا کیا ہوں گے‘‘۔ آغا تراب علی نے کہا۔ ’’اچھے بھلے نیک مسلمانوں کو تم لوگ ٹھگ بنائے دے رہے ہو‘‘۔
پلٹ کر جواب دینے کی ہمت تو کسی میں نہ تھی، لیکن سب نے دل میں کہا، جان بچی لاکھوں پائے، خواہ وہ کسی بہانے سے بچی ہو، جان بچ تو گئی۔ آغا تراب علی کے بھی دل میں اس دفعہ کچھ گھبراہٹ اور خوف کا ملا جلا ملگجا سا غبار اڑ رہا تھا۔ خوبی کی بات یہ تھی کہ دھوپ چمکتی ہوئی تھی، موسم خوشگوار تھا اور بہت ہموار آسانی سے تیز تیز چلتے ہوئے انہوں نے قنوج کے دو منزل آگے قیام کیا۔ یہاں سے فتح گڑھ کا فاصلہ ڈیڑھ کوس کے فاصلے پر تھا۔ سرائے کی چہل پہل، اونٹ گاڑیوں کا ہجوم، بچوں کی چیخ پکار اور کلکاریاں، پاس کے مندروں اور مساجد سے عبادت اور اذان کی آوازوں کے غلغلے میں مرزا تراب علی کی طبیعت کچھ ہلکی ہوئی۔ انہوں نے حکم دیا کہ سب اہل قافلہ آرام سے پائوں پھیلا کر دیر تک سوئیں۔ صبح گرم پانی سے نہا دھو، تازہ دم ہو کر دن چڑھے روانہ ہوں گے۔ (جاری ہے)