سرفروش

عباس ثاقب
میرے ذہن میں سوال چکرا رہا تھا کہ اب میں کیا کروں؟ میں اس محل نما حویلی میں بظاہر پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے سے محفوظ ہوں، لیکن یہ پناہ گاہ بھی مجھ سے چھننے والی ہے۔ ابھی کچھ دیر میں مہندر مجھے ساتھ لے جانے کے لیے آنے والا ہے۔
پھر میں ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔ میں فی الحال اس حویلی سے باہر نکلنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھی بہانہ کر کے مجھے ہر قیمت پر یہاں رکنا ہوگا۔
کچھ دیر سوچ بچار کے بعد میں نے اپنے ارادے کو پورا کرنے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا۔ میں نے سب سے پہلے اپنا بھرا ہوا ریوالور اضافی گولیوں سمیت غسل خانے میں بنے ایک مچان نما خلا میں چھپادیا اور پھر کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ کر غسل خانے میں گیا اور پیشانی سے چوبی چوکھٹ پر اتنے زور سے ٹکر ماری کہ میرا سر زور سے چکرانے لگا۔ خود کو سنبھالنے کے بجائے میں دروازے کے عین سامنے منہ کے بل ڈھیر ہو گیا۔
میں نے اپنے ناٹک کو حقیقی بنانے کے چکر میں غالباً کچھ زیادہ ہی زور سے سر پھوڑ لیا تھا، کیونکہ میرے دماغ میں مسلسل دھماکے ہو رہے تھے اور مجھے لگ رہا تھا کہ میں واقعی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پاؤں گا۔ سردی کے باوجود مجھے اپنا جسم پسینے میں بھیگتا محسوس ہو رہا تھا۔ شاید آنکھیں کھولنے پر بھی نظروں کے سامنے اندھیرا ہی رہتا۔
یقین سے کہنا مشکل ہے کہ میں نیم بے ہوشی کے عالم میں کتنی دیر وہاں پڑا رہا، لیکن پھر میرے کانوں نے کھٹ پٹ کی آواز سنی اور پھر کوئی تیز تیز قدموں سے میرے پاس آیا ’’کی ہویا تہانوں باؤ جی، تُسی چنگے تے ہو؟‘‘۔ میں نے سُکھپال سنگھ کی تشویش بھری آواز سنی۔ یہ وہی بھاری بھرکم خادم تھا، جو لاجو بہن کے ساتھ میرے لیے ناشتہ لایا تھا اور اب وہ شاید برتن اٹھانے آیا تھا۔ اس نے مجھے سیدھا کیا۔ اس کے ساتھ اس کے منہ سے بے ساختہ تشویش بھری پکار برآمد ہوئی ’’ہائے او میریا ربا… اے کی ہوگیا!‘‘۔
سُکھپال نے مجھے گھسیٹ کر کسی نہ کسی طرح بستر پر لٹادیا اور مجھے ہوش میں لانے کے لیے میرے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور میرے منہ میں پانی ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن میں نے اتنی آسانی سے ہوش میں آنے کے لیے تو اپنی کھوپڑی نہیں چٹخائی تھی۔ تمام جتن ناکام ہونے پر وہ بوکھلایا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
میرے اندازے کے عین مطابق کچھ ہی دیر میں میرے کمرے میں ہنگامہ بپا تھا۔ سب سے پہلے سکھپال کے ساتھ لاجو بہن اور مہندر پہنچے۔ وہ دونوں میرے حواس بحال کرنے کی کوششیں کر ہی رہے تھے کہ جوگندر اور ہرمندر پر مشتمل سردار بھائیوں کی جوڑی بھی پہنچ گئی۔ میری حالت دیکھ کر وہ سب سخت پریشان ہو رہے تھے۔ ان کے قیاس کے مطابق میں غسل خانے سے نکلتے ہوئے چوکھٹ میں پاؤں اٹکنے کی وجہ سے گر گیا تھا اور میرا شاید قریبی چارپائی کے پائے سے سر ٹکرایا تھا۔
جب پانی چھڑکنے، ہاتھ پاؤں سہلانے جیسے ٹوٹکوں سے میری بے ہوشی نہ ٹوٹی تو ہرمندر نے اپنے بیٹے کو حکم دیا ’’مہندر پُتر، تو جیپ تیار کر تے تُرنت دروجے تے لے آ… جوان نوں بٹھنڈے دے اسپتال لے جانا پاؤ گا!‘‘۔ (مہندر بیٹے، تم جیپ تیار کر کے فوراً دروازے پر لے آؤ۔ جوان کو بٹھنڈا کے اسپتال لے جانا پڑے گا)۔
مہندر باپ کا حکم سنتے ہی میرا ہاتھ چھوڑ کر اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔ وہاں موجود تمام افراد میری عافیت کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ خصوصاً لاجو جی تو فکر سے نڈھال ہو رہی تھی۔ میرا مقصد پورا ہو چکا تھا اور اسپتال جانے اور پہچانے جانے کا خطرہ مول لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ چند ہی لمحے بعد میرے حلق سے درد ناک کراہ برآمد ہوئی، جسے سنتے ہی وہ سب چونک کر میری طرف متوجہ ہوگئے۔ میں نے ایک اور کراہ خارج کی اور پھر کسمسایا۔ اس کے ساتھ ہی میرا سیدھا ہاتھ گویا خودبخود پیشانی کی طرف اٹھ گیا۔ مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ میری پیشانی پر اچھا خاصا بڑا گولا ابھرا ہوا تھا، جو ہاتھ لگانے پر کسی پھوڑے کی طرح دکھنے لگا۔ اسے چھوتے ہی میرے منہ سے سچ مچ کراہ نکل گئی تھی۔
میری حالت میں یہ پیش رفت دیکھ کر وہ جوش بھرے لہجے میں امید ظاہر کر رہے تھے کہ میں ہوش میں آرہا ہوں۔ میں نے انہیں مایوس نہیں کیا اور کراہتے ہوئے دھیرے دھیرے آنکھیں کھول دیں۔ میں نے پلکیں جھپکاتے ہوئے گویا بینائی بحال کی اور پھر بدستور کراہتے ہوئے ادھر ادھر نظریں گھمائیں۔ ان سب لوگوں کو خود پر جھکا پاکر میں نے چونکنے کا ناٹک کیا اور پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن چوٹ کی شدت نے مجھے اٹھنے نہیں دیا۔ وہ سب بھی یک زبان ہوکر مجھے لیٹے رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔ جبکہ اس دوران لاجو جی کی طرف سے واہگورو کی شان میں تشکر آمیز کلمات کا سلسلہ جاری رہا، جس نے مجھے زندگی لوٹا دی تھی۔
’’ہائے… میریا ربا… میرا متھا…‘‘۔
’’بوہت پیڑھ ہو رہی ہے آکاش ویرے؟‘‘۔ لاجو جی کے لہجے میں تشویش کے ساتھ پیار کی بھی بھرمار تھی۔ ساتھ ہی جوگندر بھی بولا ’’چنتا نہ کر یار… واہگورو کی کرپا سے جلدی بھلا چنگا ہوجانا اے تُوں!‘‘۔
’’آہو… رب نے بڑی مہربانی کیتی!‘‘۔ ہرمندر نے اپنے چھوٹے بھائی کی تائید کی ’’پر تُسی کیویں ڈگ پئے سو؟‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment