جڑواں شہروں میں الیکشن ڈیوٹی کے لئے 4 ہزار گاڑیاں پکڑلی گئیں

مرزا عبدالقدوس
راولپنڈی اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے الیکشن ڈیوٹی کے لئے چار ہزار سے زائد گاڑیاں زبردستی پکڑ لیں، جس سے نہ صرف جڑواں شہروں کے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ سارا دن مزدوری کر کے شام کو اپنے بچوں کے لیے کھانے کا سامان لے جانے والے ہزاروں ڈرائیور اور کنڈکٹر بھی تین دن کے لئے رل گئے ہیں۔ جبکہ تین دنوں میں ٹرانسپورٹرز کا تقریباً ڈھائی کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ علاوہ ازیں ان گاڑیوں کا عملہ ہزاروں روپے کے اخراجات بھی اپنی جیب سے کرے گا۔
اسلام آباد میں مارگلہ تھانے کے سامنے اسلام آباد ماڈل کالج کے وسیع گراؤنڈ میں سینکڑوں گاڑیوں کو تئیس جولائی کی شام ہی سے لاکر قبضے میں لیا جا رہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے ایک ذمہ دار کے مطابق چوبیس جولائی کی دوپہر تک یہاں ساڑھے چھ سو گاڑیاں لائی گئی تھیں، جن میں بعض سرکاری اداروں کی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ جبکہ اسلام آباد ٹرانسپورٹ اتحاد یونین کے ذرائع کے مطابق ان کی آٹھ سو سے زائد گاڑیاں اسلام آباد انتظامیہ نے قبضے میں لی ہیں، جن میں بعض گاڑیوں کے ڈرائیورز اور مالکان سے ڈسٹرکٹ ٹرانسپورٹ اتھارٹی اسلام آباد کے عہدیداروں نے دو تین ہزار روپے رشوت دے کر انہیں چھوڑ دیا ہے۔ گاڑیوں کو قبضے میں لینے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ روٹ پر مسافروں کو لے جانی والی گاڑی کے ڈرائیور سے گاڑی کے کاغذات اور لائسنس لے لیا جاتا ہے اور اسے ایک رسید دے کر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا روٹ مکمل کرکے فلاں مقام پر گاڑی لے کر اگلے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچ جائے۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا راولپنڈی کے ٹرانسپورٹرز کو بھی ہے۔ جن کی مختلف علاقوں سے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار گاڑیاں قبضے میں لی گئی ہیں۔ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی راولپنڈی کے ڈائریکٹر خالد یامین ستی کے مطابق تحصیل راولپنڈی میں چھ سو گاڑیاں اس مقصد کیلئے حاصل کی گئیں۔ اسی طرح ذرائع کے مطابق ضلع راولپنڈی کی دیگر تحصیلوں میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں قبضے میں لی گئی ہیں۔ ذرائع کے بقول سرکاری گاڑیوں کو چھوڑ کر پبلک ٹرانسپورٹ اور گڈز کمپنیوں کی دو ہزار سے زائد گاڑیوں سے راولپنڈی ضلع میں الیکشن ڈیوٹی کے دوران ڈیوٹی لی جائے گی اور ان کے مالکان، ڈرائیورز کو بمشکل ڈیزل کے اخراجات دیئے جائیں گے۔ جبکہ اس دوران ان گاڑیوں کے عملے کو کھانا اپنی جیب سے کھانا پڑے گا۔ راولپنڈی میں کچہری کے قریب جناح پارک میں ان گاڑیوں کو رکھا گیا ہے۔
اسلام آباد راولپنڈی کے ایک بڑے ٹرانسپورٹر ملک محمد شوکت کے بقول ’’ایک عام گاڑی روزانہ ڈھائی سے تین ہزار روپے تک کی بچت کرتی ہے، جبکہ ہمارا کاروبار اس دوران تقریباً تین دن ٹھپ رہے گا۔ تئیس کی شام سے کچھ گاڑیاں قبضے میں لے لی گئیں اور کچھ ٹرانسپورٹر نے گھروں میں بند کر دیں کہ پکڑے نہ جائیں۔ چوبیس کو کام نہیں ہوا۔ پچیس جولائی کو بھی یہ گاڑیاں پولنگ اسٹیشن پر ہوں گی اور آٹھ بجے رات پولنگ ختم ہونے کے بعد گنتی ہوگی۔ پھر پولنگ اسٹاف کو یہ گاڑیاں ان کے گھروں کے قریب اتاریں گی تو ممکنہ طور پر چھبیس جولائی کی صبح تین چار بجے فارغ ہوں گی۔ جن ڈرائیورنے ساری رات ڈیوٹی کی ہوگی، وہ اب روٹ پر کیسے گاڑی چلا سکے گا۔ گویا یہ دن بھی ضائع ہوگا‘‘۔
اسلام آباد ٹرانسپورٹ اتحاد یونین کے عہدیدار قاضی عقیل نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ضلعی انتظامیہ سراسر زیادتی اور بدمعاشی کر رہی ہے۔ ہمیں کاروبار کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ ہماری سینکڑوں گاڑیاں دو دن سے اسلام آباد کے ایک کالج گراؤنڈ میں کھڑی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے ڈرائیورز اور کنڈکٹرز کیلئے کھانا تو دور کی بات، شدید گرمی کے اس موسم میں پینے کے پانی کا بھی بندوبست نہیں کیا۔ غریب ڈرائیورز اور کنڈکٹرز اپنی جیب سے کھانے، پینے پر اخراجات کر رہے ہیں۔ گاڑیاں تین چار دن ان کے پاس بند رہیں گی، لیکن یہ صرف اتنا ہی ڈیزل تقریباً پندرہ بیس لیٹر، ڈلوائیں گے جتنا اس گاڑی اور پولنگ اسٹیشن کا فاصلہ ہوگا‘‘۔ ایک سوال پر قاضی عقیل نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے چند دن قبل ان سے کہا تھا کہ انہیں الیکشن ڈیوٹی کے لئے صرف ایک سو ستر گاڑیاں درکار ہوں گی۔ لیکن آٹھ سو سے زائد گاڑیاں پکڑی جا چکی ہیں، جن میں سے بعض گاڑیاں اسلام آباد انتظامیہ کے ایک عہدیدار گل شیر نے دو دو، تین تین ہزار فی گاڑی رشوت لے کر چھوڑ دیں‘‘۔ ’’امت‘‘ نے جب اس سلسلے میں متعلقہ عہدیدار اے ایس آئی گل شیر سے بات کی تو گل شیر نے کلمہ پڑھ کر اور قسم اٹھا کر قاضی عقیل کے الزام کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ’’وہ ایسا ایک بندہ سامنے لائیں جس سے میں نے رقم لی ہو۔ میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر چلا جاؤں گا۔ دراصل ٹرانسپورٹرز مجھ سے اس وجہ سے تنگ ہیں کہ میں غلط کام نہیں کرتا اور یہ لوگ میری جگہ اپنی مرضی کا بندہ لانا چاہتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کو مجھ پر اعتماد ہے۔ اس لئے انہوں نے دوبارہ اس عہدے پر پوسٹ کیا ہے‘‘۔
ٹرانسپورٹ یونین کے عہدیداروں کے مطابق ان کی تقریباً چار ہزار گاڑیاں جن میں گڈز ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں بھی شامل ہیں، تحویل میں لی گئی ہیں۔ فی گاڑی کم از کم اوسط بچت دو ہزار روپے بھی مقرر کی جائے تو تین دنوں میں ہر گاڑی کے مالک کو کم از کم چھ ہزار روپے نقصان ہوگا اور یہ رقم تقریباً ڈھائی کروڑ روپے تک یا اس سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ کیونکہ کئی گاڑیوں کی روزانہ کی بچت پانچ ہزار روپے بھی ہے۔ جبکہ ان گاڑیوں کا غریب عملہ جو آٹھ دس ہزار روپے تنخواہ اور روزانہ کے مقرر کردہ کمیشن سے اپنا اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتا ہے، نہ صرف کمیشن سے محروم ہے، بلکہ فی کس روزانہ کم و بیش دو سو روپے خرچ کر کے بیگار کی ڈیوٹی پر مجبور ہے۔ ان دنوں میں ان کی جیب سے پانچ سے چھ سو روپے فی کس خرچ ہوں گے، جو محنت مزدوری کرنے اور کمیشن پر کام کرنے والے کسی بھی فرد کے لئے خاصی رقم ہے۔
’’امت‘‘ نے جب اس سلسلے میں ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر خالد یامین ستی سے استفسار کیا کہ وہ گاڑی مالکان کو یا ان کے اسٹاف کو کتنا معاوضہ دیں گے تو انہوں نے کہا ’’ہماری ڈیوٹی گاڑیاں فراہم کرنا تھا۔ اب ریٹرننگ آفیسرز یا سیشن کورٹ کا عملہ الیکشن کمیشن کی منظوری سے ان کو رقم دے گا‘‘۔ ذرائع کے مطابق اس انتخابی عملے اور پولنگ کا سامان لے جانے والی گاڑیوں کے علاوہ راولپنڈی اسلام آباد سے بڑی تعداد میں گاڑیاں آزاد کشمیر میں بھی بھجوائی گئی ہیں، جو وہاں سے سیکورٹی اسٹاف کو لائیں گی اور چھبیس جولائی کی شام کو انہیں ان کے مقامات پر پہنچا کر واپس آئیں گی‘‘۔

Comments (0)
Add Comment