عہد رسالت کے بن شکن

رمضان المبارک (10 ہجری) میں بنو بجیلہ کا وفد مدینہ منورہ آیا۔ یہ وفد ایک سو پچاس آدمیوں پر مشتمل تھا اور اس کے قائد حضرت جریرؓ بن عبد اللہ البجلی تھے۔ جب وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو آنحضورؐ نے ان سے پوچھا: ’’کیسے آنا ہوا؟‘‘
انہوں نے عرض کیا: ’’اسلام قبول کرنے کے لیے۔‘‘
یہ سن کر حضور اقدسؐ کے روئے مبارک پر بشاشت پھیل گئی اور آپؐ نے ان کے بیٹھنے کیلئے اپنی چادر مبارک بچھا دی۔ پھر صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت کرو۔‘‘
(حضرت جریرؓ اپنے علاقے میں آباد قبیلہ بجیلہ کے سردار تھے۔ ان کے اجداد کسی زمانے میں یمن کے فرمانروا تھے، اس لئے ان کی رگوں میں شاہی خون تھا اور وہ اپنے وطن میں بڑی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔)
اس کے بعد حضرت جریرؓ نے اسلام کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ میں اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔
حضور انورؐ نے ان سے فرمایا: ’’تم ان امور کی گواہی دو گے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ہوں۔ نمازیں جو تم پر فرض کی گئی ہیں، ان کی پابندی کروگے، رمضان کے روزے رکھو گے، زکوٰۃ دو گے، مسلمانوں کی خیر خواہی کرو گے کہ جو کسی پر رحم نہیں کرتا خدا اس پر رحم نہیں کرتا اور اپنے والی (امیر) کی اطاعت کروگے خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
حضرت جریرؓ نے بلا تامل عرض کیا ’’حضور! میں ان سب باتوں کا اقرار کرتا ہوں۔‘‘
اس پر حضور اقدسؐ نے ان سے بیعت لے لی اور اس کے ساتھ ہی وفدکے دوسرے ارکان کلمۂ توحید پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ (طبقات ابن سعد، الاصابہ)
مسند احمد بن جنبل میں حضرت جریرؓ سے روایت ہے کہ: ’’جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو شہر سے باہر سواری بٹھا کر کپڑوں کے تھیلے سے اپنا حلہ (عمدہ جوڑا) نکالا اور اسے پہن کر مسجد نبویؐ کی طرف روانہ ہوا۔ رسول اقدسؐ اس وقت خطبہ دے رہے تھے۔ میں سلام کر کے بیٹھ گیا۔ لوگ محبت بھری نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے، میں نے اپنے قریب کے آدمی سے پوچھا: ’’کیا رسول اقدسؐ میرا تذکرہ فرما رہے تھے؟‘‘
انہوں نے کہا…’’ہاں ابھی ابھی نہایت اچھے الفاظ میں تمہارا تذکرہ فرمایا۔ آپ خطبہ دے رہے تھے۔ اس کے دوران میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس کھڑکی یا دروازے کے راستے تمہارے پاس یمن کا بہترین شخص آئے گا، جس کے چہرے پر بادشاہی کی علامت ہوگی۔‘‘
اس روایت میں یہ تصریح نہیں کی گئی کہ یہ واقعہ کب پیش آیا۔ بعض ارباب سیر نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ واقعہ حضرت جریرؓ کے پہلی مرتبہ بارگاہ نبویؐ میں حاضری کے موقع پر پیش آیا، لیکن یہ قرینہ بھی ہے کہ یہ واقعہ ان کے قبول اسلام کے بعد آئندہ کسی موقع پر پیش آیا ہو۔
’’طبقات ابن سعد‘‘ میں ہے کہ مدینہ کے اثنائے قیام میں ایک دن حضرت جریرؓ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا:
’’جریر! تمہاری قوم کا کیا حال ہے؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:… ’’حضور! حق تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا کیا، مساجد اور صحراؤں میں صدائے توحید (اذان) بلند ہوتی ہے اور لوگوں نے اپنے بتوں کو توڑ ڈالا ہے۔‘‘
حضور اقدسؐ نے پوچھا: ذو الخلصہ کا کیا ہوا؟
ذوالخلصہ، بنو بجیلہ کے بڑے بت کا نام تھا۔ اس کے معبد کو لوگ کعبۂ یمانیہ کہا کرتے تھے۔ اسلام سے متاثر ہونے کے باوجود بعض قبائل میں ابھی توہم پرستی باقی تھی اور وہ ایسے بتوں اور معبدوں کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے تھے۔
حضرت جریرؓ نے عرض کیا: ’’حضور! ابھی تک وہ باقی ہے، جب ہم واپس جائیں گے تو اس کا بھی خاتمہ کردیں گے۔‘‘
حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’کیا تم اسے ڈھا کر مجھے مطمئن نہیں کرو گے!‘‘
انہوں نے عرض کیا: ’’میں حاضر ہوں، لیکن مشکل یہ ہے کہ میں گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘
یہ عذر سن کر آپؐ نے ان کے سینے پر اپنا دست مبارک پھیرا (بروایت دیگر آپؐ نے اپنا دست مبارک حضرت جریرؓ کے سینے پر اس زور سے مارا کہ اس پر آپؐ کی انگشت ہائے مبارک کے نشان پڑ گئے) اور ساتھ ہی دعا کی: الٰہی اس (جریرؓ) کو گھوڑے کی پیٹھ پر قائم رکھ (جما دے) اور اس کو ہادی و مہدی بنا۔
اس دعا کے نتیجے میں حضرت جریرؓ گھوڑے پر جم کر بیٹھنے لگے اور انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر بڑے بڑے معرکے سر کیے۔
پھر حضور اکرمؐ نے حضرت جریرؓ کو جھنڈا عطا فرمایا اور وہ ایک سو پچاس سواروں کے ہمراہ عازم یمن ہو گئے اور وہان پہنچ کر ذو الخلصہ اور اس کے معبد کو منہدم کر کے آگ لگا دی۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے چند دن کے بعد حضور اقدسؐ کی خدمت میں واپس آکر عرض کیا: ’’حضور! ہم نے ذوالخلصہ کو توڑ کر آگ لگا دی اور اب وہ خاکستر کا ڈھیر ہے۔ کسی کو ہمارے کام میں مزاحم ہونے کی ہمت نہیں پڑی۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ ذوالخلصہ کو برباد کرنے کے بعد حضرت جریرؓ نے ابو ارطاۃ کو اطلاع کے لئے مدینہ بھیجا۔ انہوں نے بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوکر ذوالخلصہ کی بربادی کا حال بیان کیا اور کہا کہ میں اس وقت تک وہاں سے نہیں چلا جب تک ذی الخلصہ جل کر خارشی اونٹ جیسا نہیں بن گیا۔ یہ سن کر آپؐ بہت خوش ہوئے اور اس سریہ میں شریک تمام اصحابؓ کیلئے برکت کی دعا کی۔ (ایک روایت کے مطابق آپؐ نے ان کیلئے پانچ مرتبہ دعا کی)۔
زرقانیؒ نے ’’شرح مواہب‘‘ میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ رسول اقدسؐ کے وصال سے تقریباً دو مہینے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت جریرؓ ذی الخلصہ کو ڈھانے کی مہم پر محرم11 ہجری میں روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے اس کو ڈھانے کی اطلاع دینے کے لئے ابو ارطاۃؓ کو بارگاہ نبویؐ میں بھیجا۔ چند دن بعد وہ خود بھی مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے، لیکن ابھی راستے ہی میں تھے کہ حضور اقدسؐ کے وصال کی خبر ملی۔
(مسند احمد بن حنبل، طبقات ابن سعد، اسد الغابہ، مواہب اللدنیہ، بذل القوۃ)

Comments (0)
Add Comment