جب آنحضرتؐ کا وصال ہوا تو تمام صحابہؓ پر صدمے کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا اور سب پر گریہ طاری تھا۔ اس حالت میں اکثر صحابہؓ یہ کہتے سنے گئے کہ ’’کاش! ہم آپؐ سے پہلے مر گئے ہوتے، کیونکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کے بعد فتنوں میں مبتلا نہ ہو جائیں۔‘‘
لیکن ایک صحابی حضرت معن بن عدیؓ یہ فرما رہے تھے:
ترجمہ ’’لیکن خدا کی قسم، مجھے یہ خواہش نہیں تھی کہ میں آپؐ سے پہلے انتقال کر جائوں، کیونکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ جس طرح میں نے آنحضرتؐ کی حیات مبارکہ میں آپؐ کی تصدیق کی ہے، اسی طرح آپؐ کی وفات کے بعد بھی آپؐ کی تصدیق کروں۔
چنانچہ حضرت معن بن عدیؓ جنگ یمامہ تک بقید حیات رہے، آنحضرتؐ نے حضرت زید بن خطابؓ سے ان کی مواخات قائم کرا دی تھی، چنانچہ ان دونوں دینی بھائیوں نے یمامہ کے مقام پر ایک ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ (البدایہ والنہایہ ص 339 ج 6)
خلیفہ منتصر کا ایک عجیب واقعہ
علی بن یحییٰ منجّم کہتے ہیں کہ عباسی خلیفہ منتصر نے ایک مرتبہ ایک مجلس منعقد کی اور حکم دیا کہ اس میں دیباج کے زرتار قالین بچھائے جائیں، چنانچہ قالین بچھائے گئے۔ ان میں سے ایک قالین کے بیچ میں ایک بڑا سا دائرہ تھا، جس میں ایک شہسوار کی تصویر تھی، جس کے سر پر تاج تھا اور دائرے کے گرد فارسی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ جب منتصر مجلس میں آکر بیٹھا اور حاضرین جمع ہوگئے تو اس نے دائرے کو دیکھ کر قریب کھڑے ہوئے ایک سردار سے پوچھا: ’’یہ کیا لکھا ہے؟‘‘ وہ سردار اسے نہ پڑھ سکا، پھر اس نے دربار کے تمام حاضرین سے یہی سوال کیا، لیکن کوئی بھی اسے صحیح طور سے نہ پڑھ سکا۔ منتصر نے ایک غلام کو حکم دیا کہ کسی فارسی جاننے والے کو بلا کر یہ عبارت پڑھوائو۔
تھوڑی دیر میں ایک شخص نے آکر اس عبارت کو پڑھا، لیکن پڑھ کر دم بخود رہ گیا۔
منتصر نے پوچھا: ’’کیا لکھا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں، امیر المومنین!‘‘ اس نے کہا ’’ایرانیوں کی حماقت ہے۔‘‘
وہ بولا ’’امیر المومنین اس کے کچھ معنی نہیں۔‘‘
منتصر کو غصہ آگیا اور اس نے سختی کے ساتھ اس عبارت کا ترجمہ سنانے کا مطالبہ کیا۔ اس شخص نے کہا، اس میں لکھا ہے کہ:
’’میں شیرویہ بن کسریٰ بن ہرمز ہوں، میں نے اپنے باپ کو قتل کیا تھا اور اس کے بعد چھ ماہ سے زیادہ میری سلطنت قائم نہ رہ سکی۔‘‘
منتصر کا چہرہ متغیر ہوگیا اور وہ اٹھ کر زنان خانے میں چلا گیا اور اس کی سلطنت چھ ماہ سے زائد قائم نہ رہی۔ (تاریخ بغداد للخطیب ص 120 و 121 ج 2)