محمد بن یوسفؒ فرماتے ہیں: مجھ کو میرے ایک ساتھی نے بتایا:
’’میں مصر میں عبید اللہ (بادشاہ) کے پاس کھانا کھانے جاتا تھا۔ سو وہ جب دسترخوان بچھا کر اس پر روٹی رکھتا تھا تو ہر چیز میں سے تھوڑا تھوڑا تناول کرتا تھا۔ پھر جب فارغ ہو جاتا تو بچا ہوا کھانا صدقہ کر دیا کرتا تھا۔
ایک دن میں نے اس کو کھانے کے شروع میں ایک موٹی سری پیش کی۔ اس نے اس کے کنارے پر انگلی ماری تو وہ پھٹ گئی۔ جس نے دسترخوان کو گھی سے بھر دیا۔ تو اس نے اپنا ہاتھ روک دیا اور کہنے لگا: خدا کا شکر، مجھے اس سے ایک بات یاد آگئی، میں تم کو وہ بتاتا ہوں۔
کہنے لگا: ’’میں بغداد میں ’’سُوْقُ الْھَیْثَم‘‘ میں رہا کرتا تھا۔ ایک دن مجھے پیسوں کی ضرورت پیش آئی، مگر میرے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ مجھے بہت تھوڑے سے پیسوں کی ضرورت تھی، لیکن میرے پاس نہ کوئی کھانا تھا اور نہ ہی میرے پاس کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کو بیچ کر اس سے اپنے اس دن کا کھانا ہی لے لیتا۔ سوائے یہ کہ میرے پاس ایک نبیذ تھی (کھجور کا شربت) جو کہ تیار ہو چکی تھی اور میں اپنے گھر کے دروازے پر تنگ دل بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اس کو کس میں لگاؤں۔
اتنے میں میرے پاس سے میرا ایک دوست گزرا تو وہ آکر میرے پاس ہی بیٹھ گیا۔ سو ہم باتیں کرنے لگے، جب وہ جانے لگا تو میں نے تکلفاً اس کو کھانے کا بولا، جو عام طور پر رسماً بولا جاتا ہے تو اس نے قبول کر لیا اور بیٹھ گیا۔ میں نے تمنا کی کہ کاش! میں گونگا ہی ہو جاتا تو اچھا تھا، چنانچہ اب میرے پاس اس کو اپنے گھر بلانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ سو میں نے اس کو اندر بلایا اور اپنی والدہ کے پاس جا کر ان کو یہ بات بتائی۔ تو انہوں نے اپنی چادر دی اور کہا: ’’اس کو بیچ دو اور آج اپنی ذمہ داری پوری کرو۔‘‘
میں نے اس کو تین دراہم میں بیچ کر اس سے ایک روٹی، مچھلی، کچھ سبزی اور خوش بو خریدی اور ان کو لے کر گھر آگیا۔
ابھی میں گھر میں بیٹھا ہی تھا کہ ہمارے گھر میں کسی پڑوسی کی مرغی آگئی۔ تو میں نے اس کو پکڑ کر ذبح کیا، چھیلا اور اپنی والدہ کو دے کر کہا: اس کو بھون دو۔ انہوں نے بھون دیا اور جو کچھ میں نے خریدا تھا، اس کے ساتھ اس کو بھی اپنے دوست کے سامنے پیش کیا۔ پھر ہم نے سب مل کر کھایا۔
جب میرا ہاتھ اس سری پر پڑا تو مجھے اپنا وہ حال یاد آیا کہ ایک تو وہ تنگ دستی والا حال تھا اور ایک یہ خوش حالی، نعمتوں اور بادشاہت والا حال ہے۔ سو حق تعالیٰ کا اس کی نعمتوں پر شکر ہے۔‘‘
پھر اس نے اپنا بہت سا مال منگوایا اور حکم دیا کہ اس میں سے آدھے کا مصر میں صدقہ کر دیا جائے اور اس کا آدھا مکہ اور مدینہ میں بھجوایا اور وہاں اس کا صدقہ کیا۔
اور دسترخوان اور جو کچھ اس پر تھا، ان کے بارے میں حکم دیا کہ وہ مسکینوں کو کھلا دیا جائے۔ اور ایک دوسرا دسترخوان لانے کا حکم دیا۔ (الفرج بعدالشدۃ للقاضی التنوخی: 283/3)
احمد ابن طولونؒ کا ایک عجیب واقعہ
احمد بن طولونؒ خلیفہ معتز کے زمانے میں مصر کے حاکم تھے۔ اس سے پہلے وہ معروف ترکی بادشاہ طولون کے پاس رہتے تھے اور طولون نے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ طولونؒ نے انہیں کسی کام سے دارالامارہ بھیجا، وہاں انہوں نے بادشاہ کی ایک کنیز کو محل کے کسی خادم کے ساتھ بے حیائی میں مبتلا پایا۔ احمد بن طولونؒ اپنے کام سے فارغ ہو کر بادشاہ کے پاس واپس پہنچے، لیکن اس قصے کا اس سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ ادھر کنیز کو یہ یقین ہوگیا کہ ابن طولونؒ بادشاہ سے ضرور میری شکایت کردیں گے، اس لئے اس نے یہ حرکت کی کہ طولون کے پاس جا کر احمد بن طولونؒ کی شکایت کردی کہ وہ ابھی میرے پاس آئے تھے اور مجھے بے حیائی پر آمادہ کرنا چاہتے تھے۔ کنیز نے شکایت اس انداز سے کی کہ بادشاہ اس سے بہت متاثر ہوا اور اس نے فوراً احمد بن طولونؒ کو بلوایا اور کنیز کی شکایت کا زبانی طور سے تو کچھ ذکر نہیں کیا، البتہ ایک مہر شدہ خط ان کے حوالے کر دیا اور حکم دیا کہ یہ خط فلاں امیر کے پاس پہنچا دو۔ خط میں یہ لکھا تھا کہ ’’جو شخص یہ خط تمہارے پاس لارہا ہے، اسے فوراً گرفتار کر کے قتل کردو اور اس کا سر میرے پاس بھیج دو۔‘‘
احمد بن طولونؒ کو ادنیٰ وہم بھی نہ تھا کہ ان کے خلاف سازش ہو چکی ہے۔ وہ خط لے کر روانہ ہوئے، راستے میں اسی کنیز سے ملاقات ہوگئی۔ کنیز یہ چاہتی تھی کہ بادشاہ احمد بن طولونؒ کو مجھ سے باتیں کرتے ہوئے دیکھ لے تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ میری شکایت درست تھی۔ چنانچہ اس نے احمد بن طولونؒ کو باتوں میں الجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ مجھے ایک ضروری خط لکھوانا ہے، آپ خط لکھ دیجئے اور آپ بادشاہ کا جو مکتوب لے کر جا رہے ہیں، وہ میں دوسرے خادم کے ذریعے بھجوا دیتی ہوں۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کا مکتوب اسی خادم کے حوالے کر دیا، جس کے ساتھ وہ بے حیائی میں مبتلا ہوئی تھی۔ وہ خادم خط لے کر اسی امیر کے پاس پہنچا۔ امیر نے خط پڑھتے ہی اسے قتل کرادیا اور اس کا سر طولون کے پاس بھیج دیا۔ بادشاہ وہ سر دیکھ کر حیران رہ گیا اور احمد بن طولونؒ کو بلوایا۔ احمد بن طولونؒ نے سارا ماجرا سنا دیا اور کنیز نے بھی اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ اس دن کے بعد سے بادشاہ کی نظر میں احمد بن طولونؒ کی وقعت دو چند ہوگئی اور اس نے وصیت کی کہ میرے بعد ان کو بادشاہ بنایا جائے۔ یوں ایک عام آدمی مصر کا بادشاہ بن گیا۔ (البدایہ والنہایہ ص 46 ج 11)