اگلی صبح کو آغا تراب علی کپڑے پہن کر ناشتے کے لئے تیار ہو رہے تھے کہ منیر خان نے آ کر سلام کیا اور کچھ جھجکھتے ہوئے، کچھ شرماتے ہوئے ملتجیانہ لہجے میں بولا ’’سرکار، کچھ عرض کرنا ہے‘‘۔
’’کہو، کہو‘‘۔ مرزا تراب علی نے محسوس کیا کہ اس وقت منیر خان کے چہرے پر لجاجت تھی جیسی کل اور پرسوں کے پاپیادہ قافلے والوں کا سامنا کرتے وقت نظر آئی تھی۔ لیکن جب منیر خان نے بات کہی تو وہ کچھ اور ہی تھی۔ ’’سرکار، یہ میرے گھر کے ہیں ، میرے ماموں کے بیٹے‘‘۔ وہ بولا۔ پھر اسے شاید خیال آیا کہ بات ابھی واضح نہیں ہوئی۔ ’’ جی، یہ میرا ماموں زاد بھائی ہے۔ صادق خان اس کا نام ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے پیچھے مڑ کر کسی شخص کو اشارہ کیا کہ آگے آجائو۔ تیس پینتیس سال کی عمر، پستہ قد، گٹھا ہوا بدن، سر پر ربگین پھینٹا، برمیں ربگین گزی کا کرتا اور اسی رنگ اور کپڑے کا پاجامہ، ایک برکا، دونوں کپڑے بالکل صاف دھلے ہوئے اور پیوند یا چاک سے عاری جیسے کسی معمولی لیکن شریف گھرانے کا غریب آدمی ہو۔
’’ تسلیمات عرض کرتا ہوں سرکار‘‘۔ اس نے جھک کر دو تسلیمیں کیں اور ایک طرف سکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی نگاہیں اپنے پائوں پر مضبوطی سے جما رکھی تھیں۔
’’کیا نام ہے تمہارا؟ کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘۔
نو وارد نے اپنی آنکھیں زمین پر قائم رکھیں۔ ’’غلام کو صادق خان کہتے ہیں۔ ہم کمپو سے آ رہے ہیں‘‘۔
’’تو کیا تم تنہا نہیں ہو؟‘‘۔
’’ج… جی نہیں عالی جاہ‘‘۔
آغا تراب علی کے دل میں کچھ سنساہٹ سی ہوئی۔ ’’کل کتنے نفر ہو تم؟‘‘۔
’’پ… پندرہ… بیس ہیں سرکار‘‘۔
’’عورتیں اور بچے؟‘‘۔
’’کوئی بھی نہیں جناب۔ ہم لوگ اپنی نوکری سے گھر واپس جا رہے ہیں۔ ہمارے گھر والے وہیں پر ہیں‘‘۔
مرزا تراب علی کچھ دیر چپ رہے۔ پھر انہوں نے کہا ’’منیر خان؟‘‘۔
’’جی سرکار‘‘۔
’’یہ تمہارے سگے ماموں کا بیٹا ہے؟‘‘۔
’’ج … جی… نہیں سرکار۔ رشتے کا بھائی ہے‘‘۔
’’تم اسے پہلے سے جانتے ہو؟‘‘۔
یہ سوال سن کر نوارد کچھ اور سکڑ گیا، لیکن پھر بھی وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ مرزا تراب علی نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’منیر خان، میں نے تم سے پوچھا ہے‘‘۔
اب منیر خان اور نو وارد دونوں کے چہروں پر سراسیمگی کے سے آثار نمایاں ہوئے۔ نووارد نے منیر خان کو کچھ آنکھ کا اشارہ کرنا چاہا، لیکن مرزا تراب علی نے اسے جھڑک دیا ’’تم چپ رہو جی۔ منیر خان، تم نمک حرامی پر تو آمادہ نہیں ہو گئے؟‘‘۔ یہ کہتے کہتے آغا تراب علی نے طمنچہ اٹھا لیا۔
نو وارد نے تیزی سے قدم پیچھے اٹھایا اور دروازے سے ٹکراتا ہوا ہڑبڑا کر نکل گیا۔ مرزا تراب علی نے چاہا کہ اس کا تعاقب کریں، لیکن پھر رک کر انہوں نے منیر خان کے سینے پر طمنچہ رکھا اور گرج کر کہا: ’’حرام زادے، تو مجھے ٹھگوں سے خبردار کرتا تھا اور اب تونے انہیں کے ہاتھ اپنا ایمان بیچ ڈالا‘‘۔ مرزا تراب علی کے بدن پر کچھ خشم ناکی اور کچھ گھبراہٹ کے سبب لرزش تھی۔ ’’تونے میرے شیر خوار بچے کا بھی کچھ خیال نہ کیا‘‘۔
منیر خان نے سینہ تان کر اور گردن سیدھی کر کے کہا ’’مجھے بے شک گولی مار دیں۔ حضور مالک ہیں، میں بندہ نمک خوار۔ میرا ایمان تو آپ کے ہاتھوں پہلے ہی دن سے گروی ہے۔ میں آپ کا دوکھی ہوں۔ مجھ سے آدمی پہچاننے میں غلطی ہوئی‘‘۔
’’نطفہ شیطان، باتیں مت بنا۔ میں تیرے دونوں ہاتھ پائوں توڑکر تجھے ہمیشہ کے لئے اپاہج کر دوں گا‘‘۔
’’عالی جاہ۔ میں مرنے کے لئے تیار ہوں۔ میری بھول کی یہی سزا ہے۔ لیکن میں غدار نہیں ہوں۔ میں اللہ کا کلام سر پر رکھ کر کہہ سکتا ہوں…‘‘۔
’’یہ بھول تھی؟ دنیا تو اسے دغا بازی ہی کا نام دے گی۔ ایک انجان آدمی کو تونے اپنا ماموں زاد بتایا اور اسے میرے قتل کے لئے میرے ہی سامنے لا کھڑا کر دیا‘‘۔
’’بتایا نہیں سرکار، دھوکے میں آ کر مان لیا‘‘۔
’’حرام زادے، کچھ تو تحقیق کی ہوتی‘‘۔
’’عالی جاہ، انہوں نے جیسے میرے سر پر الو کی ہڈی پھیر دی تھی… میں کچھ بھی سمجھ نہ پایا کہ کیسا فریب کھا رہا ہوں‘‘۔ اب منیر خان کی گردن جھکنے اور اس کی آنکھیں دھندلانے لگی تھیں۔ مرزا تراب علی کے بھی ہاتھ کا تنائو اب کم ہو گیا تھا اور قریب تھا کہ وہ طمنچہ نیچے کر لیں۔ لیکن انہوں نے دانت بھینچ کر ہاتھ کو وہیں مضبوط رکھا۔ انہیں کچھ تجسس بھی تھا کہ آخر ایک نپٹ اجنبی نے منیر خان جیسے چلت پھرت کے شخص کو کس طرح یقین دلا دیا کہ وہ اس کا ماموں زاد بھائی، یا ماموں زاد بھائی نہ سہی، دور کا قرابت دار ہے۔
منیر خان نے جیسے مرزا تراب علی کے دل کی بات جان لی۔ وہ یوں ہی سر جھکائے جھکائے بولا: ’’سرکار۔ اس نے اور اس کے ایک دو ساتھیوں نے مجھ سے ایسی ایسی چکنی چپڑی باتیں کیں کہ کیا عرض کروں۔ نہ جانے کہاں کہاں کے رشتے ناتے جوڑ کر انہوں نے مجھے یقین دلا دیا۔ میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں۔ آپ کی گولی میرے سینے میں اتر جائے تو میں دین دنیا میں سپھل ہو جائوں‘‘۔
’’اور میں تمہارے قتل کا مجرم ٹھہروں۔ تمہارے گھر والوں کو کیا جواب دوں گا…۔ اب تم اسی وقت میرے سامنے سے دفع ہو جائو۔ جائو میں نے تمہاری تقصیر بخش دی۔ میں نے یہ معاملہ یہیں پر ختم کیا۔ باقی دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے‘‘۔
موت کے جوکھم سے اس قدر نزدیک آ جانے کی ذہنی تکان، اور منیر خان جیسے قدیمی اور معتبر خدمت گزار کو نوکری سے نکالنے، اور وہ بھی ان نامبارک حالات میں نکالنے کا افسوس اور رنج، ان باتوں نے آغا تراب علی کا دل افسردہ کر دیا تھا۔ انہوں نے کچھ کھائے پئے بغیر بوجھل قدموں سے اگلے پڑائو کے لئے سفر شروع کیا۔ منیر خان کی برطرفی کے بعد ان کے ملازموں کی تعداد سات رہ گئی تھی۔ لیکن تجربے اور فراست کے اعتبار سے منیر خان ان ساتوں سے بڑھ کر تھا۔ اور جب منیر خان جیسا جہاندیدہ شخص ٹھگوں کا فریب کھا سکتا تھا تو پھر اوروں کا کیا ٹھکانا تھا…۔
انہیں خیالوں میں گم، ہر طرف چوکنی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے، اپنے نوکروں میں سے کچھ کو ذرا آگے ہر اول کے طور پر، کچھ کو اپنے دائیں بائیں، اور دو کو اپنے پیچھے رکھتے ہوئے آغا تراب علی دھیرے دھیرے بڑھتے گئے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ آج دن ڈوبتے ڈوبتے قائم گنج ہوتے ہوئے ککرالا پہنچ جائیں۔ وہاں سے بدائوں، آنولہ اور شاہ آباد ہوتے ہوئے رامپور کوئی بہتر کوس یا ساڑھے چار دن کی راہ تھا۔ لیکن احتیاط، بلکہ تقریباً پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی وجہ سے ان کی رفتار بہت دھیمی ہو گئی تھی۔ کشتی والے قافلے کو فتح گڑھ پر دریائی راستہ چھوڑ کر خشکی کی راہ سے دس کوس قائم گنج اور پھر ککرالہ پہنچنا تھا۔ ایک خیال یہ تھا کہ اگر مرزا تراب علی کے قافلے نے اپنی رفتار ہلکی رکھی اور دو چار دن کہیں راہ میں قیام بھی کر لیا تو دونوں قافلے بدائوں اور آنولہ کے درمیان مل بھی سکتے تھے۔ بڑی جمعیت کا اپنے ساتھ مل جانا بہت دلکش اور امید افزا ضرور تھا، لیکن آغا تراب علی اب کہیں ٹھہرنے کو تیار نہ تھے۔ اس وقت ان کی رفتار یوں ہی مدھم ہو رہی تھی جو ان کی مرضی کے خلاف تھا۔ لیکن سنبھل سنبھل کر چلنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
اس ادھیڑ بن میں راستے طے کرتے ہوئے وہ کچھ دور نکل آئے۔ جب مرزا تراب علی نے چونک کر آسمان پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ دن بہت چڑھ چکا ہے۔ وہ مشرق سے مغرب کی طرف جا رہے تھے۔ اس لئے سورج ابھی ان کے پیچھے تھا اور گھڑ سواروں، خچر سواروں اور پیادہ سپاہیوں کے لمبے سائے سڑک پر پھیل رہے تھے۔ بظاہر ابھی قائم گنج بہت دور تھا۔ چاروں طرف دور تک بنجر میدان دھوپ میں سست پھیلا ہوا تھا۔ اس کی انتہا ہی نہ ملتی تھی۔ لمبے سایوں کو اجاڑ اور سنسان راستے پر رینگتے دیکھ کر مرزا تراب علی کا جی چاہا کہ کوئی اور قافلہ، یا کچھ سوار، نہیں تو دو چار پیادہ مسافر ہی مل جاتے تو کچھ من بھاونا ہو جاتی…۔ کتنا سونا رستہ ہے۔ بھیڑیا ہی مل جائے۔ یا شاید راستہ اتنا ہول انگیز نہ تھا، یہ آغا تراب علی کے دل میں بیٹھی ہوئی دہشت تھی جو کسی پچھل پائی کی طرح ان کے آگے آگے بھی چل رہی تھی اور کبھی کبھی مڑ کر اپنا بھیانک چہرہ اور بگاڑ کر گویا ان کا منہ چڑاتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ مرزا تراب علی نے سڑک پر دور تک نگاہ کی، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ کچھ آگے جا کر سڑک ایک تیز خم کھا کر شمال کی طرف مڑتی تھی۔ خم اتنا تیز تھا کہ اس کے آگے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ مرزا تراب علی کو وہم ہونے لگا کہ کہیں اس موڑ کے پرلی طرف ٹھگوں کا کوئی جرگہ ان کی تاک میں بیٹھا ہوا ہو تو ہم لوگ ان شیطانوں سے کس طرح نپٹیں گے۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ گھڑ سواروں پر قابو پانے کے لئے دو کے بجائے تین ٹھگ حملہ کرتے ہیں۔ ایک گھوڑے کی راس کو پکڑ لیتا ہے، اس قدر مضبوط اور سخت پکڑ کہ گھوڑا ایک قدم حرکت نہیں کر سکتا۔ دوسرا ٹھگ سوار کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے نیچے کھینچ لاتا ہے اور تیسرا ٹھگ سوار کے گرتے گرتے آلہ قتل یعنی سفید اور زرد پٹیوں والے موٹے کپڑے کے انگوچھے (ٹھگوں کی اصطلاح میں ’’رومال‘‘) سے چشم زدن میں اس کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ شکار کو تڑپنے کی بھی مہلت ٹھیک سے نہیں ملتی …۔ مرزا تراب علی کو دور سڑک پر کچھ سایہ نما سیاہی دکھائی دی، جیسے درختوں کا کوئی جھنڈ ہو۔ اگر اس جھنڈ میں دشمن… ’’لاحول ولا قوۃ۔ یہ کیا عورتوں والے اوہام ہیں‘‘۔ مرزا تراب علی نے برے خیالات کو دل سے بھٹکتے ہوئے خود سے کہا۔ لیکن ان کا دل پھر بھی بار بار انہیں بھیانک پیکروں میں الجھ جاتا۔ انہوں نے ورد شروع کیا اور دل ہی دل میں منت مانی کہ گھر پہنچ جائوں بحفاظت، تو پہلی فرصت میں مرزا مبارک پر حافظ شاہ جمال اللہ صاحب کے چادر چڑھائوں گا اور لنگر منعقد کروں گا۔ اور کار ہائے سرکار سے مہلت ملتے ہی امروہی جا کر درگاہ حضرت مخدوم شاہ ولایت پر حاضری دوں گا۔ مرزا تراب علی کو اب محسوس ہوا کہ موڑ سے ذرا پہل سواد سا نظر آتا تھا اور جسے وہ درختوں کا کوئی جھنڈ سمجھے تھے کہ سڑک کے وسط تک سایہ کئے ہوئے ہے، دراصل چند مسافروں کا گروہ تھا۔ کوئی آٹھ دس آدمی رہے ہوں گے۔ ان میں سے ایک آدمی چادر لپیٹے ہوئے پڑا سو رہا تھا۔ شاید بیمار ہو یا زخمی ہو۔ تین چار آدمی لیٹے ہوئے شخص کے سرہانے اور پائنتی بیٹھے ہوئے کچھ باتیں کر رہے تھے، یا شاید کچھ دعا وغیرہ پڑھ رہے ہوں۔ باقی تین چار شخص کندھے جھکائے ہوئے مایوسی کی تصویر بنے سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے آغا تراب علی کے قافلے کو امید اور خوف بھری آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ (جاری ہے)