شیخ سعدی شیرازی اور حافظ شیرازی دونوں بزرگوں کے مزاروں پر اور ان کے اطراف میں ماحول بڑا پر فضا، پرسکون اور پر نور لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ان بزرگوں نے عبادات کے علاوہ اپنے علم سے خلق خدا کی جو خدمت کی ہے اسے اللہ تعالی نے اپی بارگاہ میں شرف قبولیت بخش دیا ہے۔ گو وہ روایتی قسم کے پیر، فلسفی، ماہر طب، ماہر ریاضی یا مامذہبی پیشوا نہ تھے اور صرف اپنی شاعری اور نثری تصانیف سے ہی خلق خدا کی مقدور بھر خدمت کی ہے، مگر اس کے باوجود قبول عام کا جو مرتبہ اللہ تعالی نے ان ہستیوں کو اور ان کی ادبی کاوشوں کو عطا کیا، وہ بہت کم بزرگوں کے حصے میں آیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان بزرگوں کو گزرے اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی عوام و خواص میں ان کی مقبولیت میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں آئی ہے، بلکہ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
آرامگاہ شیخ سعدی کو چھوڑنے اور سوئے آرامگاہ خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی چلنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ شیخ سعدی جیسے عظیم شاعر نیز عظیم نثرگار اور انتہائی باہمت ناصح کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ گفتگو کر لی جائے۔ شیخ سعدی 589ھ بمطابق1333ء میں پیدا ہوئے اور 691ھ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح قمری برسوں کے مطابق شیخ نے ایک سو دو سال کی عمر پائی۔ ان کی زندگی کا یہ زمانہ اکثر مسلم ممالک کیلئے بڑا پر آشوب تھا۔ دراصل یہ زمانہ تھا چنگیز خان کا، ہلاکو خان کا، آخری عباسی خلیفہ معتعصم باللہ کا اور وسطی ایشیا کی مشہور ترک سلطنت خوارزم کے والی سلطان محمد خوارزم شاہ کا۔ منگولوں کی غارت گری سے پوری مسلم دنیا پریشان تھی اور اس پریشانی میں شیخ سعدی کا ایران بھی شامل تھا۔
شیخ سعدی کے والد محترم کا نام عبداللہ شیرازی تھا، جو ایک باخدا، متقی اور بزرگ انسان تھے۔ وہ شیراز کے حکمران سعد زنگی کے یہاں ملازم تھے۔ وہ اپنے بیٹے کی تربیت کے بارے میں بہت سنجیدہ تھے۔ اسی لئے سعدی کو بچپن ہی سے نماز، روزہ اور زندگی کے دوسرے اہم مسائل ازبر کرائے گئے۔ اس طرح ان کے کردار کی دینی بنیاد بچپن ہی میں مستحکم ہوگئی۔ شیخ سعدی نے گلستاں کی ایک حکایت میں اپنے والد محترم کے انداز تربیت کے بارے میں بیان کیا ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک روز علی الصبح بعد نماز فجر اپنے والد محترم کے ہمراہ کسی باغ میں ہوا خوری کیلئے گیا۔ پرندے چہچہا رہے تھے۔ موسم معتدل تھا۔ نسیم صبح کے مشکبار جھونکے روح کو بالیدگی بخش رہے تھے۔ ایسے میں، میں نے بے اختیار اپنے والد سے کہا کہ کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اس پر فضا اور روح پرور وقت کو اپنے گھروں میں سو کر گزار رہے ہیں۔ اس پر والد محترم نے مجھے ڈانٹا کہ دوسروں کی نقص گیری کرنے اور ان کی غیبت کرنے سے تو بہتر تھا کہ تو بھی گھر میں سویا رہتا‘‘۔
مگر اس عظیم باپ کا سایہ شیخ کے سر سے بچپن ہی میں اٹھ گیا اور ان کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ ماجدہ کے نازک مگر باہمت اور پر اعتماد کندھوں پر آ پڑی، جس سے وہ خاتون نیک اختر بڑے احسن طریق سے عہدہ برآہوئیں اور مشرف الدین میں شیخ اجل مشرف الدین مصلح بن عبداللہ سعدی بننے کے جراثیم پیدا کر دیئے۔ شیخ کی والدہ صاحبہ شیخ کی جوانی تک بقید حیات رہیں۔ مگر شیخ کو لڑکپن ہی میں ان کو شیراز چھوڑ کر اکیلے ہی بغرض تعلیم بغداد جانا پڑا کہ اس زمانے میں گو حاکم شیراز سعد زنگی عدل و انصاف کرنے والے حاکم تھے، مگر ایک تو وہ زمانہ جنگ و جدل اور طوائف الملوکی کا زمانہ تھا۔ دوسرے سعد زنگی انتظامی صلاحیتوں سے کچھ زیادہ بہرہ مند نہ تھے۔ اس لیے ان کی سلطنت کی حالت انتظامی اور مالی اعتبار سے ابتر تھی۔
شیخ نے بغداد جا کر جس مدرسے میں داخلہ لیا، اس کا نام مدرسہ نظامیہ بغداد تھا اور اس مدرسے کو حضرت نظام الملک طوسی نے جو عمر خیام اور حسن بن صباح کے ہم جماعت تھے، 459ھ میں قائم کیا تھا۔ اس مدرسے میں شیخ کے اساتذہ میں سب سے زیادہ جلیل القدر نام علامہ ابو الفرج عبدالرحمن بن جوزی کا ہے۔ علامہ جوزی اپنے وقت کے امام علم و فن تھے۔ انہوں نے لاتعداد اور عظیم الشان تصانیف چھوڑی ہیں اور عالم اسلام کے دینی حلقوں میں آج بھی ان کا نام بڑی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ تصوف کے مراحل طے کرنے میں شیخ سعدی نے شیخ شہاب الدین سہروردی کا دامن تھاما۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سمندری سفر میں بھی وہ حضرت سہروردی کے رفیق سفر رہے ہیں۔
شیخ سعدی کی زندگی عموماً ان کے سوانح نگار چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
1۔ پہلے 30 برس حصول علم میں صرف کیے۔
2۔ اگلے 30 برس سیر و سیاحت میں۔
3۔ اس سے اگلے 30 برس کتب نویسی میں۔
4۔ باقی ماندہ بارہ سال عزلت و گوشہ نشینی اور یاد خدا میں صرف کیے۔
شیخ کے بعض سوانح نگار ان کی عمر کے مندرجہ بالا چاروں حصوں کو تیس، تیس سال کا بنا کر یعنی ان کو ہم وزن کر کے ان کی عمر ایک سو بیس (120) سال بنا دیتے ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ کیا سعدی کے اشعار کے مصرعوں کی طرح ان کی عمر کے حصوں کا بھی ہم وزن ہونا ضروری ہے؟
شیخ کی زندگی کا سیر و سیاحت یا صحرا نوردی کا زمانہ ان کی زندگی کا نہایت اہم زمانہ ہے۔ دراصل اسی زمانے نے شیخ سعدی کو وہ شیخ سعدی بنایا کہ جس کو ہم جانتے ہیں۔ اس عرصے نے انہیں کیا دیا، وہ ان کے اقوال اور ان کی تصانیف بالخصوص ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ میں جگہ جگہ جھلکتا ہے۔ مگر اس صحرا نوردی (اس زمانے کے سفر بالخصوص بین الملکی سفر دراصل صحرا نوردی کے زمرے میں ہی آئیں گے) نے سعدی کو بڑی تکالیف اور مصائب سے دو چار کیا۔ حتیٰ کہ غلامی کی زندگی گزارنے پر بھی مجبور کیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ شیخ ایک دفعہ اپنے شوق صحرا نوردی سے مغلوب ہوکر دمشق پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ سکون سے گزرا تھا کہ دمشق کو ایک سخت قحط نے آ دبوچا۔ غالباً دمشق کے قحط پر لکھی گئی سعدی کی مشہور زمانہ نظم اسی زمانے میں لکھی گئی تھی۔
قحط تو جیسے تیسے گزر گیا، مگر سعدی پر افلاس کی اور زمانے کی ناقدری کی دیگر مصیبتیں اتنی بڑھیں کہ آخر کار دمشق چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ وہاں سے مارچ کیا اور سیدھے فلسطین پہنچے اور وہاں کے کسی صحرا میں گوشہ نشین ہوگئے۔ مگر تقدیر نے انہیں اس ویرانے میں بھی سکون سے نہ بیٹھنے دیا اور وہاں فلسطینی عیسائیوں نے انہیں پکڑ کر غلام بنالیا اور جسمانی محنت و مزدوری کے کاموں یعنی سقائیت (پانی بھرنا اور پہنچانا)، زیر تعمیر عمارتوں میں مزدوری اور خندقیں کھودنے پر کچھ دیگر یہودی قیدیوں و غلاموں کے ساتھ لگادیا۔ اسی زمانے میں ایک دن جبکہ وہ دیگر قیدیوں اور غلاموں کے ساتھ کسی شہر کے گرد حفاظتی خندق کی کھدائی کی بیگار کر رہے تھے کہ حلب (ملک شام) کا کوئی معزز اور صاحب حیثیت شخص ادھر سے گزرا۔ وہ شیخ کو پہچانتا بھی تھا اور ان کے مرتبے سے بھی واقف تھا۔ اس نے شیخ سے پوچھا کہ یہ آپ کس حال میں ہیں اور اس حال کو کیونکر پہنچے؟
شیخ سعدی بولے ’’یہ انقلاب زمانہ ہے۔ جو شخص اپنوں سے پناہ مانگتا تھا آج غیروں کے پنجہ ظلم کا شکار ہے‘‘۔
اس مرد نیک و حق آگاہ نے شیخ سعدی کے اس وقت کے آقاؤں کو ان کی منہ مانگی قیمت یعنی 10 دینار (400 گرام سونا) ادا کیے اور شیخ کو ان کی قید سے چھڑا کر اپنے ساتھ حلب لے گیا اور وہاں جا کر سو دینار مہر کے عوض اپنی بیٹی سے ان کی شادی کر دی۔ مگر ان کی اہلیہ خاصی سخت مزاج اور کم ظرف نکلیں۔ دراصل وہ شیخ سعدی کے مرتبے سے ناآشنا تھیں اور اس کمپلیکس میں مبتلا تھیں کہ میرا یہ شوہر غلام تھا اور اس کو میرا باپ خرید کر لایا تھا۔ چنانچہ ان صاحبہ نے ایک دن شیخ صاحب کو یہ طعنہ دیا کہ ’’تو وہی تو ہے کہ جس کو میرا باپ دس دینار میں خرید کر لایا تھا‘‘۔ اس پر شیخ صاحب کہاں چوکنے والے تھے۔ برجستہ بولے ’’ہاس دس دنیار میں خریدا تھا اور سو دینار میں آپ کے ہاتھ بیچ دیا‘‘۔