تحریک انصاف کے وسائل پر نون لیگی ووٹ بھگتاتے رہے

امت رپورٹ
پنجاب کے مختلف شہروں میں سست انتخابی عمل کے علاوہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو یہ شکایت رہی کہ بیشتر پولنگ اسٹیشنوں میں اس کے پولنگ ایجنٹوں کو داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ نون لیگ کے ’’اینٹی رگنگ سیل‘‘ کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اسے سینکڑوں کی تعداد میں ایسی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں کہ اگر کسی ووٹر نے ن لیگ کا بیج لگایا ہے یا پی ٹی آئی کا مقامی پولنگ ایجنٹ جانتا ہے کہ مذکورہ فیملی مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے تعلق رکھتی ہے تو ان کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ اس پولنگ بوتھ میں ان کا ووٹ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ الیکشن سیل کے ڈپٹی کو آرڈینیٹر بابر گیلانی کے بقول انہیں ملک بھر سے اس قسم کی ہزاروں شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختون سے تھیں۔ جبکہ پنجاب بھر سے موصول اس نوعیت کی شکایات دوسرے نمبر پر تھی۔ بابر گیلانی کے مطابق نون لیگ کی اینٹی رگنگ کمیٹی اور الیکشن سیل، مسلسل یہ شکایات الیکشن کمیشن کو بھیجتا رہا۔ جبکہ ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہونے پر تمام شکایتوں کو یکجا کر کے الیکشن کمیشن میں جمع کرایا جائے گا۔ کیونکہ ایسی شکایات موصول ہوتی رہیں کہ مسلم لیگی ووٹر کے جانے سے پہلے ہی کسی اور نے اس کا ووٹ کاسٹ کر دیا۔ صرف حلقہ پی پی 149 کے علاقے قریشی محلہ مزنگ کے پولنگ اسٹیشن پر اس نوعیت کی شکایات کی تعداد 12 سے 13 ہیں۔
ادھر مسلم لیگ ’’ن‘‘ لاہور کے ایک عہدیدار کے بقول ہر حلقے میں پارٹی امیدوار کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ وہ اپنے ووٹروں کو سادہ لباس میں ووٹ کاسٹ کرنے کا پابند کریں۔ پارٹی کے جھنڈے والی ٹوپی یا کسی قسم کا بیج لگا کر نہ جائیں، تاکہ شناخت کو چھپایا جا سکے۔ بدقسمتی سے پارٹی امیدوار اپنے کارکنوں میں پورے طریقے سے اس میسج کو نہیں پہنچا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ صبح کے ابتدائی وقت میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ووٹروں کو اس نوعیت کی دشواری کا سامنا رہا۔ تاہم دوپہر کے وقت حالات کو دیکھ کر نون لیگی ووٹر نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی تھی۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ لاہور میں نون لیگ کی پوزیشن بہتر دیکھ کر پارٹی کی صوبائی قیادت نے دوپہر کو اپنے ورکروں اور اینٹی رگنگ سیل کو پیغام پہنچایا تھا کہ فی الحال زیادہ دھاندلی کا شور نہ مچایا جائے، کیونکہ کم از کم لاہور کی بیشتر نشستوں پر نون لیگ کی پوزیشن آنے کی رپورٹس ہیں۔ عہدیدار کے بقول صوبائی قیادت کا اندازہ تھا کہ لاہور کی 14 نشستوں میں سے 9 یا 10 نون لیگ کے حصے میں آئیں گی۔
لاہور میں الیکشن کے موقع پر یہ دلچسپ صورت حال بھی رہی کہ نون لیگیوں کی ایک بڑی تعداد نے تحریک انصاف کے وسائل پر اپنے ووٹ بھگتائے۔ حلقہ این اے 131 میں واقعہ مدینہ کالونی کے ایک نون لیگی ووٹر نے بتایا کہ اس کے گھر میں کل 12 ووٹ تھے۔ ان میں سے 10 سعد رفیق کو ڈالے گئے۔ ووٹر کے مطابق وہ صبح کے وقت اپنی فیملی کے تمام ارکان کو پی ٹی آئی کی گاڑیوں میں لے کر متعلقہ پولنگ اسٹیشن پہنچا تھا اور خاموشی سے نون لیگ کو ووٹ کاسٹ کر کے واپس آ گیا۔ واضح رہے کہ حلقہ 131 میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سعد رفیق کے درمیان مقابلہ تھا۔ اسی طرح حلقہ این اے 125 لاہور میں واقع شفیق آباد کے رہائشی ایک نون لیگی بینکار نے بتایا کہ وہ اور اس کے 6 بہن بھائیوں کی فیملیاں آگے پیچھے کی دو گلیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اس نے بھی تحریک انصاف کی گاڑیوں میں تین مختلف مرحلوں میں اپنے خاندان کے 25 افراد کو پولنگ اسٹیشن پہنچایا اور نون لیگ کو ووٹ ڈلوائے۔ بینکار کے بقول اس کے گھر پر صبح ساڑھے آٹھ بجے ہی پی ٹی آئی والے اپنی گاڑیاں لے کر آ گئے تھے۔ حتیٰ کہ پچھلے دو روز کے دوران تین مرتبہ پی ٹی آئی والے ان کے گھروں پر ووٹ کی پرچیاں دے کر گئے کہ کس کا ووٹ کس پولنگ بوتھ میں ہے۔ یوں ان لوگوں کو پولنگ اسٹیشن پہنچ کر لسٹ میں اپنے نام تلاش کرنے میں دشواری نہیں ہوئی۔
ادھر شاہدرہ میں مقیم پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلانے والے ایک مقامی عہدیدار نے بتایا کہ لاہور میں پارٹی کی انتخابی مہم پر سب سے زیادہ اخراجات علیم خان نے کئے جو کروڑوں روپے بنتے ہیں۔ ماضی میں نون لیگ کے لئے کام کرنے والے اس عہدیدار کے مطابق علیم خان نے لاہور میں اپنے حلقے این اے 129 اور عمران خان کے حلقے این اے 131 میں ووٹروں کو خریدنے پر بھی خاصی رقم خرچ کی۔ عہدیدار کے مطابق جس گھر میں 20 ووٹر تھے، اسے ایک سی ڈی 70 موٹر سائیکل کی آفر تھی۔ اس طرح بڑے مشترکہ خاندان یا ایک ہی گلی میں رہائش پذیر 30 ووٹ رکھنے والے خاندان کو ہنڈا 125 موٹر سائیکل، جبکہ برادری کے 50 ووٹ لانے والے کو سوزوکی مہران کار دی گئی۔ انتخابی مہم کے دوران علیم خان نے والٹن روڈ اور اس کے اردگرد علاقوں میں دو دو لاکھ روپے دے کر متعدد چھوٹے بڑے انتخابی دفاتر بھی کھلوائے تھے اور ان دفاتر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں و ہمدردوں کو دوپہر اور شام کو بریانی اور قورمے کی دیگیں بھجوائی جاتی رہیں۔ عہدیدار کے مطابق اتنا پیسہ خرچ کرنے کے باوجود بھی اگر علیم خان ہار جاتے ہیں تو پھر یہ ان کے لئے بڑا سیٹ بیک ہو گا۔ واضح رہے کہ علیم خان کا مقابلہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ساتھ تھا۔ اس حلقے سے ابتدائی خبریں علیم خان کے حق میں نہیں آ رہی تھیں۔ عہدیدار کے مطابق لاہور میں پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد وہ واحد پارٹی رہنما تھیں، جن کے حلقے میں علیم خان نے پیسہ نہیں لگایا اور وہ تن تنہا اپنی انتخابی مہم چلاتی رہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر یاسمین راشد علیم خان گروپ کی گڈ بک میں نہیں ہیں۔ نون لیگی امیدوار کے مقابلے میں یاسمین راشد کی پوزیشن بھی زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ تاہم یہ غیر حتمی اور ابتدائی نتائج تھے۔

Comments (0)
Add Comment