غیرتربیت یافتہ اسٹاف کے سبب ووٹنگ عمل سست رہا

وجیہ احمد صدیقی/ مرزا عبدالقدوس نجم الحسن عارف/ محمد زبیر خان
کوئٹہ میں ایک پولنگ اسٹیشن کے قریب ہونے والے خودکش حملے کے علاوہ ملک بھر میں انتخابات پرامن ہوئے۔ البتہ بعض علاقوں میں ٹرن آئوٹ کم رہا، جس کی کئی امیدواروں نے یہ شکایت کی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تعینات کیا جانے والا عملہ غیر تربیت یافتہ تھا۔ پولنگ اسٹاف کو ووٹ جاری کرنے کے لئے تیزی کے ساتھ کام کرنا چاہیے تھا، لیکن وہ سست روی سے کام کر رہا تھا۔ دوسری جانب پولنگ اسٹیشنوں میں الیکشن کمیشن کے انتخابی عملے کے لئے نہ کھانے کا انتظام تھا اور نہ وہ اپنی نشست سے اٹھ کر پانی پینے جاسکتے تھے۔ اس کے باوجود اسلام آباد کے تینوں حلقوں کے پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ کی شرح 60 فیصد سے زیادہ رہی۔ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے تین حلقے ہیں۔ این اے 52، این اے 53 اور این اے54۔ این اے 52 اسلام آباد 1 میں مسلم لیگ (ن) کے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل اور تحریک انصاف کے خرم نواز کے درمیان مقابلہ تھا۔ اس حلقے میں سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھر کے بھائی محمد افضل کھوکھر بھی تھے، لیکن مجموعی طور پر وہ نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے امیدواروں سے پیچھے ہی نظر آرہے تھے۔ این اے 53 اسلام آباد 2 میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا براہ راست مقابلہ تھا۔ جہاں اپنے پکے ووٹوں کے ساتھ ایم ایم اے کے میاں محمد اسلم بھی موجود تھے۔ تاہم مقابلہ شاہد خاقان عباسی اور عمران خان میں ہی تھا، جہاں عمران خان کو سبقت حاصل تھی۔ این اے 54 اسلام آباد 3 میں تحریک انصاف کے اسد عمر اور مسلم لیگ (ن) کے انجم عقیل خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔ لیکن اسد عمر کو یہ فائدہ ملا کہ اس حلقے میں ایم ایم اے کے میاں اسلم اور آزاد امیدوار زبیر فاروق خان دونوں ہی انجم عقیل خان کے ووٹوں کو تقسیم کر رہے تھے۔ ان کے علاوہ خود نون لیگ کے ایک مقامی رہنما حفیظ الرحمن آزاد امیدوار کی حیثیت میں کھڑے ہوگئے۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے بھائی راجہ عمران اشرف بھی پیپلز پارٹی کے بچے کھچے ووٹ سمیٹ رہے تھے۔ نتیجتاً میدان اسد عمر کے لیے صاف تھا۔ حالانکہ اسلام آباد کے نمائندے کی حیثیت سے ان کی پچھلی کار کردگی انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کبھی اپنے حلقے کا دورہ نہیں کیا۔ وہ اسلام آباد کے رہائشی بھی نہیں ہیں۔ انہیں گولڑہ اور بھارہ کہو کا فرق اور فاصلہ بھی نہیں معلوم۔ بہرحال مجموعی طور پر پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کا انتظام فوج کے سپرد ہونے کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی جعلی ووٹ پکڑا گیا۔ اسلام آبادکے پولنگ اسٹیشنوں پر الیکشن کمیشن کی جانب سے تعینات کیے جانے والے عملے کے مرد و خواتین کو کسی جانب سے کھانے پینے کی اشیا نہیں فراہم کی گئیں۔ یہاں تک کہ ان کی میز پر پانی بھی نہیں مہیا کیا گیا تھا۔ الیکشن عملہ کی بعض خواتین اپنے ساتھ کھانا باندھ کر لائی تھیں اور انہوں نے باری باری کھانا کھایا۔ تاہم مرد عملے کو باہر سے کھانا منگوانے میں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن کمیشن نے زیادہ تر عملہ محکمہ تعلیم سے لیا ہے۔ لیکن محکمہ تعلیم نے بھی اپنے ملازمین کے ان حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ان کے علاوہ فوجی اہلکاروں کا کھانا اور پانی فوج نے ہی فراہم کیا۔ پولیس کے اہلکاروں کے لیے بھی کھانا اور پانی اسلام آباد پولیس نے مہیا کیا۔ اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے نمائندہ امت سے یہ شکوہ کیا کہ الیکشن کمیشن اور فوجی اہلکاروں کو تو آج کے دن ڈیوٹی کے لیے ٹی اے ڈی اے ملا ہے، لیکن محکمہ پولیس نے 24 جولائی سے ہماری ڈیوٹیاں یہاں لگائی ہوئی ہیں، مگر ٹی اے ڈی اے نہیں دیا۔ اسلام آباد کے پوش علاقے ایف ایٹ کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ نہیں آتا تھا۔ جبکہ گولڑہ، سید پور اور بھارہ کہو کی دیہاتی خواتین نہایت مہارت سے بیلٹ پیپر لیتیں اور اپنے پسندیدہ امیدوارکے نام پر مہر لگاتیں اور اسی مہارت کے ساتھ بیلٹ پیپر تہہ کرکے بیلٹ باکس میں ڈال دیتیں۔ 90سالہ غلام بی بی کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1971ء سے آج تک ہر الیکشن میں ووٹ دیا ہے۔ دیہی علاقوں میں ووٹروں کی قطار نظر آئی، جبکہ پوش علاقوں میں قطار بننے ہی نہیں پاتی تھی۔ ایک خاتون پولنگ آفیسر کا کہنا تھا کہ پچھلے الیکشن میں ان کی ڈیوٹی اسلام آباد کے متوسط طبقے کے علاقے آئی نائن میں لگی تھی، جہاں ووٹ ڈالنے والی خواتیں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ لیکن ایف ایٹ میں تو یہ خواتین ہم سے مہر لگانے کا طریقہ بھی معلوم کرتی ہیں۔ بری امام کے علاقے میں تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار محمد افنان عمر بلوچ کی بھی بڑی حمایت نظر آئی۔ سب سے دلچسپ بات بری امام کے پولنگ اسٹیشن پر ہی نظر آئی۔ یہاں الیکشن کمیشن کی جانب سے خواجہ سرا بطور مبصر نظر آئے۔ نمائندہ امت نے جب ان سے بات کرنا چاہی تو مجمع کا اکٹھا ہوجانے کے باعث وہ گھبرا کے چلے گئے۔ واضح رہے کہ 2018ء کے انتخابات میں خواجہ سرائوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا ہے اور کئی خواجہ سرا ئوں نے بطور امیدوار الیکشن میں حصہ بھی لیا ہے۔
ادھر راولپنڈی میں پولنگ عمل کے دوران مختلف مقامات پر سیاسی کارکنوں کے درمیان تلخ کلامی کے معمولی واقعات پیش آئے، لیکن مجموعی طور پر ماحول پرامن رہا اور ٹرن آئوٹ دیگر شہروں کے برعکس اچھا رہا۔ صرف راولپنڈی کینٹ کے علاقے پر مشتمل حلقہ این اے 61 کے دو پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ نصف گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی اور اس کا بھی ڈپٹی کمشنر راولپنڈی عمر جہانگیر نے نوٹس لیا اور یہاں کا دورہ کر کے اس تاخیر پر وہاں موجود ووٹرز سے معذرت کی۔ پولنگ اسٹیشنز کے اندر بھی کسی امیدوار کے پولنگ ایجنٹ نے کسی بدانتظامی یا بوگس ووٹنگ کی شکایت نہیں کی۔ البتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق پولنگ اسٹیشن کی حدود سے دو سو میٹر دور سیاسی جماعتوں کے کیمپ ہونے چاہئے تھے۔ لیکن ڈویژنل پبلک اسکول راولپنڈی جیسے اسٹیشنز جہاں کا چیف الیکشن کمشنر نے بھی دورہ کیا، تمام سیاسی جماعتوں کے کیمپ پچاس میٹر سے بھی کم فاصلے پر تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور پی ٹی آئی امیدوار کے خواتین پولنگ بوتھ کے کیمپ پولنگ اسٹیشن کی حدود سے صرف پندرہ میٹر دور تھا۔ لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ مسلم لیگ (ن) کی خواتین ووٹرز کو دوپہر دو بجے سے یہ شکایت رہی کہ ووٹنگ کا عمل بہت سست روی کا شکار ہے اور ایسا جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے، تاکہ نون لیگ کی حامی خواتین شیر پر مہر نہ لگا سکیں۔ راولپنڈی شہر میں پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے کیمپوں پر خاصا رش دیکھنے میں آیا۔ بعض مقامات پر متحدہ مجلس عمل کے کیمپ پر بھی رونق تھی۔ تحریک لبیک کے بعض کیمپوں پر بھی رش دکھائی دیا۔ تاہم پیپلز پارٹی کے حامی دوپہر گیارہ بجے سے ہی تقریباً فارغ ہو کر بیٹھے تھے۔ راولپنڈی میں خواتین ووٹرز نے بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا۔ جذبات سے مامور کم سن بچے بھی ان کے ساتھ آئے، لیکن ان کو پولنگ اسٹیشن کی حدود میں نہیں جانے دیا گیا۔ شیخ رشید احمد نے جو ایک حلقے کا الیکشن ملتوی ہونے کے بعد خاصے مایوس تھے، گزشتہ روز صبح کا بھرپور ناشتہ لال حویلی کے سامنے ووٹرز کے درمیان کیا اور بھابھڑا بازار کے ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایف جی قائداعظم سیکنڈری اسکول چکلالہ راولپنڈی میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ آرمی چیف نے عوام سے اپیل کی ووٹ دینے کیلئے باہر نکلیں۔ ووٹ دینے کے لئے معذور افراد بھی پولنگ اسٹیشن پر آئے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ پولنگ کے عمل کو برقرار رکھنے اور پورے شہر میں امن و امان کو قابو میں رکھنے کیلئے آرمی، رینجرز اور ضلعی انتظامیہ کے افسران باہمی رابطے میں تھے۔ راولپنڈی میں مختلف مقامات پر ریسکیو کا عملہ اور ایمبولینس بڑی تعداد میں ہائی الرٹ پوزیشن میں تھیں، تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں وہ اپنی ذمہ داریاں فوری طور پر ادا کرنے کیلئے حرکت میں آ سکیں۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد جہانگیر نے شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر سیشن جج راولپنڈی خالد نواز نے مختلف اسٹیشنوں کا دورہ کر کے پولنگ کے عمل کا جائزہ لیا اور مختلف امیدواروں کے ایجنٹوں سے کسی شکایت کے بارے میں پوچھا۔ لیکن کسی معمولی شکایت کے علاوہ امیدواروں کے ایجنٹوں نے بھی انتخابی عمل پر اطمینان کا اظہار کیا۔ بظاہر پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے کیمپوں پر زیادہ رش رہا۔ جس حلقے سے شیخ رشید احمد امیدوار تھے، وہاں پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ کے کیمپ اکٹھے تھے۔ ان کیمپوں میں بھی سارا دن رونق رہی۔ الیکشن کمیشن کو پورے ملک سے بے ضابطگیوں کی 645 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 237 شکایات سندھ سے۔ 217 پنجاب سے۔ 57 خیبرپختون اور بلوچستان سے ملنے والی 42 شکایات شامل ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں بارہ سے بجے سے پہلے تک خاصی گرمی تھی۔ تاہم اس وقت بھی پیسنے میں شرابور خواتین و حضرات اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے آئے اور اکثر ووٹرز نے موسم کی شدت کو ووٹ دینے کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔
لاہور میں بھی ووٹنگ عمل سست روی کا شکار رہا۔ تقریباً تمام قومی و صوبائی حلقوں میں پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ووٹرز کی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ ایک ووٹ کاسٹ ہونے میں دس سے بیس منٹ حتیٰ کہ بعض جگہوں پر گھنٹے بھی لگتے رہے۔ لاہور کے کئی پولنگ اسٹیشنوں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ کارڈز کے باجود صحافیوں کو کیمرے کے ہمراہ اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جبکہ متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر تو صحافیوں کو اندر ہی نہیں جانے دیا گیا، جس کے سبب انہیں اپنے فرائض ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ این اے 123 کے ایک حلقے میں نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی ایک پولنگ اسٹیشن میں جانے کے لئے داخل ہوئے تو وہاں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو روک لیا گیا۔ جب انہوں نے اپنے کارڈ دکھائے تو اہلکاروں نے کہا کہ انہیں کسی بھی کیمرہ والے کو پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ صحافی عظیم بٹ کا کہنا تھا کہ اس موقع پر انہوں نے اعلیٰ حکام سے بھی بات کی، مگر کسی نے بھی ان کی بات پر کان نہیں دھرے۔ ایک اور صحافی اسامہ قریشی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب وہ لاہور کے حلقے این اے 124 کے پولنگ اسٹیشنوں کے دورے کے لئے گئے تو ان کو روک لیا گیا۔ اس حلقے میں کئی پولینگ اسٹیشن پر بھی انہیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ این اے 124 میں ایک خاتون نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ ایک گھنٹہ سے سخت دھوپ میں قطار کے اندر کھڑی ہیں، لیکن ابھی تک ان کا نمبر نہیں آیا ہے۔ اس صورت حال میں دل چاہتا ہے کہ ووٹ پول کئے بغیر ہی گھر چلی جاؤں۔ نااہل پولنگ اسٹاف بٹھاکر قومی فریضہ ادا کرنے والوں کو تکالیف میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ ایک اور ووٹر کا کہنا تھا کہ پولنگ کا عملہ ووٹ پول کرنے کے عمل پر کم از کم ایک بندے پر پانچ سے سات منٹ لگا رہا ہے۔ ایک اور ووٹر نے بتایا کہ وہ حلقہ این اے 124 میں ووٹ پول کرنے کے لئے لائن میں کھڑا تھا۔ جبکہ اس سے آگے دو افراد تھے۔ لیکن کافی دیر بعد بھی اس کی باری نہیں آئی۔ صاف لگ رہا تھا کہ پولنگ عملہ جان بوجھ کر تاخیر کر رہا ہے۔ ایک سوال پر اس کا کہنا تھا کہ شناختی نمبر لکھواتے ہوئے بھی اس سے دو دو مرتبہ شناختی کارڈ نمبر بولنے کیلئے کہا گیا۔ جب ووٹر نمبر اور سلسلہ نمبر لکھوایا جاتا تو عملہ کے اہلکار جان بوجھ کر ووٹر لسٹوں پر ٹائم لگاتے تھے۔ حالانکہ ان کو اتنا تربیت یافتہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ ان چیزوں پر وقت ضائع نہ کریں۔ ایک اور شخص نے کہا کہ ڈیوٹی پر موجود سیکورٹی اہلکار بھی وقت ضائع ہونے کا سبب تھے۔ وہ بھی لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ بلکہ بار بار ایسی رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے جس کے نتیجے میں وقت ضائع ہو۔ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے مطالبے کے باوجود پولنگ کے وقت میں اضافہ نہیں کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی ہزار لوگ ووٹ پول نہیں کر سکے۔ مجموعی طور پر لاہور میں تقریباً تمام ہی پولنگ اسٹیشنوں پر صبح آٹھ بجے سے بارہ بجے تک ووٹنگ کا عمل انتہائی سست رہا۔ بارہ سے تین بجے تک تیزی آئی، لیکن اس وقت ووٹرز بڑی تعداد میں لائنوں میں کھڑے تھے اور قطار چیونٹی کی رفتار سے آگے کھسک رہی تھی۔ لاہور میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور نواز لیگ کے درمیان تھا۔ دونوں پارٹیوں کے کیمپ موجود تھے، جہاں ان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ دونوں جماعتوں کے حامی اپنی اپنی جیت کے دعوے کر رہے تھے۔ لاہور میں مختلف پارٹی امیدواروں کی جانب سے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو کھانے میں زیادہ تر بریانی پیش کی گئی، جبکہ ٹھنڈے پانی اور مشروبات کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان لاہور بھر میں ہلکے پھلکے تصادم کے واقعات ہوتے رہے، مگر کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ لاہور میں نواز لیگ کے کارکنان اس وقت انتہائی جذباتی ہوگئے تھے جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی والدہ ووٹ پول کرنے کے لئے آئیں۔ ایک موقع پر جب ان کی گاڑی کو پولنگ اسٹیشن کے اندر داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی تو لیگی کارکنان جذباتی ہوگئے تھے۔ خطرہ تھا کہ پولیس کے ساتھ تصادم نہ ہوجائے۔ تاہم بعد ازاں گاڑی کو اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ لاہور میں انتخابی عمل کے دوران پولنگ اسکیم کی غلطیوں کا اظہار جگہ جگہ سامنے آتا رہا۔ ایک گھرانے اور ایک گلی کے افراد کے ووٹ مختلف پولنگ اسٹیشن میں بٹ گئے۔ پولیس کا رویہ روایتی رہا، جبکہ پولنگ اسٹیشنوں میں فوجی جوانوں کی تعیناتی سے صوبائی دارالحکومت میں بالعومم ہر جگہ سب اچھا کی رپورٹ رہی۔ البتہ این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی میں قائم خواتین کے پولنگ اسٹیشن پر ڈنڈے برداروں کی تعداد ایک مرتبہ دو اہم انتخابی متحارب پارٹیوں کے حوالے سے سامنے آئی۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 134 کے پنجاب سوسائٹی میں قائم پولنگ اسٹیشن میں صبح آٹھ بجے سے پہلے ہی مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کے علاوہ ووٹرز بھی سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے۔ پنجاب سوسائٹی بی ٹی میں پانی والی ٹینکی کے نیچے قائم دفاتر میں پولنگ اسٹیشنز میں بدنظمی کے کئی مناظر بار بار سامنے آئے۔ مگر یہ بدنظمی پولنگ اسکیم کی کمزوری کے حوالے سے تھی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک سخت گرمی میں کھڑے سینکڑوں خواتین اور مرد ووٹرز کو پہلی مرتبہ بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سے اوپر کی سیریل
نمبر والے تمام ووٹرز بٹ چوک چلے جائیں۔ اس موقع پر ووٹرز کی طرف سے احتجاجی جملے بھی سامنے آئے۔ جبکہ پہلے مسلم لیگ (ن)، بعدازاں پی ٹی آئی کے بعض کارکنان قطاروں میں کھڑے ووٹرز کو پولنگ اسکیم کی اس غلطی کے بارے میں بتاتے رہے۔ پہلے جب نواز لیگ کے کارکنوں نے قطاروں میں کھڑے ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کیا تو پی ٹی آئی کے حامیوں اور ووٹرز نے اسے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انہیں ایسا نہ کرنے کیلئے کہا۔ تاہم معاملہ کسی لڑائی جھگڑے کی شکل اختیار نہ کر پایا۔ کچھ ہی دیر بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی اسی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اسی انداز میں شروع کر دی۔ اس پولنگ اسٹیشن پر ایک مثبت بات یہ دیکھنے میں آئی کہ سینئر سٹیزن جن میں بوڑھی خواتین اور مرد شامل تھے، کے لئے خصوصی قطاریں بنوائیں گئی تھیں، تاکہ وہ موسم کی شدت کا زیادہ دیر کیلئے مقابلہ کرنے سے محفوظ رہ سکیں۔ تاہم پولنگ اسٹیشن میں انتہائی تنگ کمروں میں چھ چھ سات سات انتخابی اہلکاروں اور ووٹرز کی لمبی قطاروں کے باعث ووٹرز کو نہ صرف باہر حبس اور سخت دھوپ میں سخت مشکلات کا سامنا رہا، بلکہ پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی دم گھٹنے اور حبس کے ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب سوسائٹی کے اس پولنگ اسٹیشن نمبر 27 کے پولنگ بوتھ نمبر 1 میں صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک صرف 57 ووٹ پڑے۔ پولنگ بوتھ نمبر 2 میں 59 ووٹ کاسٹ ہوئے اور پولنگ بوتھ نمبر 3 میں 51 ووٹ ڈالے جا سکے۔ اس سست روی کی اصل وجہ انتخابی عملے کی تربیت کے مسائل اور پولنگ بوتھ پر جگہ کی کمی تھی۔ اس وجہ سے ایک ووٹر کو دوپہر سے پہلے ڈھائی ڈھائی گھنٹوں تک ووٹ ڈالنے کیلئے باری کا انتظار کرنا پڑا۔ اسی پولنگ اسٹیشن پر پولنگ اسکیم کی خرابی اس طرح بھی سامنے آئی کہ کوڈ نمبر 101 اور کوڈ نمبر 103 سے تعلق رکھنے والے ووٹرز جن کی تعداد انتہائی کم تھی، انہیں انتخابی عملہ آوازیں دے دے کر بلا کر لاتا رہا کہ ان ووٹر سے متعلق انتخابی عملہ عملاً فارغ بیٹھا رہتا تھا۔ اسی پولنگ اسٹیشن پر پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کیلئے آنے والے میڈیکل کے طالب علم اسامہ وقار نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’میں تو صبح سے دھوپ میں صرف اس لئے کھڑا ہوا کہ ملک سے کرپشن کا نظام ختم کرنے اور بہتری لانے میں اپنا حصہ ڈال سکوں۔ مجھے شروع میں عمران خان سے زیادہ امیدیں تھیں۔ لیکن اب جبکہ عمران خان نے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کو اپنی جماعت میں جمع کرلیا ہے، میری ان سے توقعات کم ہوگئی ہیں۔ تاہم میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے ووٹ ڈال رہا ہوں‘‘۔ نمائندہ امت نے این اے 125 کے ساندہ روڈ پر واقع پولنگ اسٹیشن کا وزٹ کیا تو وہاں گرم جوشی سے کم نظر آئی۔ حتی کہ یہاں نواز لیگ کے کارکنوں میں جوش و خروش اور ’’انوالومنٹ‘‘ بھی مقابلتاً کم دیکھنے میں آیا۔ کئی یونین کونسلوں کے چیئرمین اور ان کے قریبی لوگ بھی اپنی گلیوں میں تو متحرک نظر آئے لیکن انہوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر اپنی موجودگی سے نسبتاً گریز کی حکمت عملی اپنائی ہوئی تھی۔ البتہ اسلام پورہ کی ایک یونین کونسل کے چیئرمین اویس بشیر خان نے اپنے کارکنوں کیلئے بریانی کا بھی اہتمام کیا تھا۔ این اے 125 کے ایک پولنگ اسٹیشن چشتیہ ہائی اسکول میں بھی ماضی کے مقابلے میں رونق نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہاں قائم سیاسی جماعتوں کے پولنگ کیمپوں کا وزٹ کیا تو اس وقت نواز لیگ کے کیمپ پر کم رونق تھی، جبکہ پی ٹی آئی کے کیمپ پر کئی گنا زیادہ لوگ موجود تھے۔ پولنگ کیلئے خواتین کی قطار بھی غیر معمولی نہیں تھی۔ این اے 125 میں مزنگ اڈے سے جڑے بوائز ہائی اسکول، گرلز ہائی اسکول اور کمیونٹی ہائی اسکول میں قائم پولنگ اسٹیشنوں سے باہر کیمپوں میں نسبتاً زیادہ گرم جوشی کا ماحول تھا۔ لیکن ان تینوں ہائی اسکولوں میں قائم پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کی آمد اکا دکا ہی رہی۔ البتہ ظہر کے بعد ووٹنگ عمل میں تیزی پیدا ہوئی۔ ظہر کے بعد تک صرف ایک ہزار کے لگ بھگ ووٹرز کا تخمینہ لگایا جاسکا۔ اس موقع پر احمد جہانگیر نامی شہری نے بتایا کہ وہ کوچہ مہر فیضا میں مکان نمبر 18 اور گلی نمبر 9 میں اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اس کے خاندان کے 16 ووٹ اپنے محلے کے پولنگ اسٹیشنوں پر ہی موجود ہیں۔ جبکہ ان سمیت 6 افراد کے ووٹ دوسری جگہوں پر پھینک دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے دوسرے متاثرہ رشتہ داروں کے نام پوچھنے پر بتایا کہ ان متاثرین میں ان کے بھائی شکیل اور فیصل جہانگیر بھی شامل ہیں۔ اسی پولنگ کیمپ پر موجود ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس نوعیت کی بہت ساری شکایات ہیں۔ سو میں سے تیس کیس اس طرح کے سامنے آرہے ہیں۔ پولنگ اسٹیشن پر نون لیگ کے کارکنان کافی متحرک نظر آئے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنان بھی موٹرسائیکلوں پر ٹکڑیوں کی صورت میں اس وقت بھی خوب نعرے لگاتے رہے جب اسی مزنگ اڈے سے فوجی گاڑی پر مسلح جوان گزر رہے تھے۔ محمد وقاص نامی شکص نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا وہ دبئی سے پاکستان آیا ہے، تاکہ ووٹ ڈال سکے۔ وہ پی ٹی آئی چھوڑ کر آیا ہے کہ عمران خان نے اپنے ساتھ لوٹے کیوں جمع کئے۔ دوسری جانب این اے 130 کے لئے پولنگ کا ایک بڑا سنگم وحدت کالونی اور پائلٹ اسکول سے جڑا ہوا تھا۔ اس حلقے میں نواز لیگ کے خواجہ احمد حسان، پی ٹی آئی کے شفقت محمود اور ایم ایم اے کے لیاقت بلوچ اہم امیدوار تھے۔ اس جگہ بنیادی طور پر یونین کونسل نمبر 218 اور یونین کونسل نمبر 219 وغیرہ سے متعلق ووٹرز کو ووٹ ڈالنا تھے۔ ان ووٹرز کیلئے پولنگ اسٹیشن ڈی ایس ڈی، ایگزامینیشن اتھارٹی، پائلٹ ہائی اسکول اور کریکولم ونگ میں مجموعی طور پر 10 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے۔ ان پولنگ اسٹیشنوں کے اس بڑے اکٹھ کی وجہ سے دوپہر سے پہلے ہی رش غیر معمولی تھا۔ یہاں پر دونوں بڑی جماعتوں کے حامی اپنے اپنے انداز میں اپنے لیڈروں کے حق میں زبردست نعرے بازی کررہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی ناخوشگواری والا کوئی معاملہ نہ تھا۔ پولنگ اسٹیشنوں کے اسی جنکشن پر ٹاؤن شپ کے رہائشی عبدالحمید نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کی اور ان کی اہلیہ کی رہائش ٹاؤن شپ میں ہے۔ ان کے ووٹ 2013ء میں یہیں تھے۔ اب دوسری جگہ بھیج دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ نواز شریف اور ان کے کام کی محبت میں اتنی دور سے ووٹ ڈالنے آئے ہیں۔ جب ’’امت‘‘ نے ان کا شناختی کارڈ چیک کیا تو واقعی وہ مکان نمبر 512 بلاک I، سیکٹر اے ٹو ٹاؤن شپ لاہور کے رہائشی تھے۔ اسی طرح اقبال ٹاؤن میں قائم ایل ڈی اے ہائی اسکول میں پولنگ اسٹیشن پر بھی ایسی کئی شکایات سامنے آئیں کہ یہاں بھی بہت سارے مقامی افراد کے ووٹ دوسری جگہوں پر منتقل ہیں۔ اقبال ٹاؤن کے مکین آصف عارف نے بتایا کہ ان کا اپنا ووٹ تو اپنے محلے میں ہی کاسٹ ہوا ہے، لیکن ان کی اہلیہ کا ووٹ این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی میں قائم پولنگ اسٹیشن پر منتقل کردیا گیا ہے۔ ایل ڈی اے ہائی اسکول برائے طالبات میں ووٹرز کی تعداد زیادہ ہونے اور پولنگ کیلئے مختص کئے گئے کمروں کی گنجائش انتہائی کم ہونے کے باعث ووٹر کو دن بھر سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ کم از کم 20 کمرے اسی اسکول میں ووٹنگ عمل کیلئے تھے۔ یہاں شہریوں نے پولنگ اسکیم کی تیاری کو بے تدبیری کا نتیجہ قرار دیا۔ احمد صابر نامی ووٹر نے کہا کہ ’’ہمیں تو لگتا ہے ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے تاکہ ایک جماعت کے حامی ووٹ ہی نہ ڈال سکیں‘‘۔ ’’امت‘‘ نے پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے والے ایک نوجوان عبدالرحمان کے احساسات دریافت کئے تو اس کا کہنا تھا کہ ’’میں بہت خوشی محسوس کررہا ہوں۔ اگرچہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ اتنی دیر تک گرمی میں کھڑا رہنا پڑتا ہے‘‘۔ ایک خاص بات جو دن بھر مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر دیکھنے میں مسلسل آئی، وہ یہ تھی کہ سیاسی جماعت کے پولنگ کیمپ کئی کئی سو میٹر پولنگ اسٹیشنوں سے دور تھے۔ اس سلسلے میں انتخابی عملے اور سیکورٹی فورسز کے متعلقہ حکام نے سختی سے عمل کرایا۔ سارا دن پورے شہر میں کوئی بھی ایسا پولنگ اسٹیشن نظر نہیں آیا جہاں ضابطہ اخلاف کے اس پہلو کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ اسی طرح موبائل فونز کے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر لے جانے کی بھی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی گئی۔ موبائل فون کے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر نہ جاسکنے کی پابندی کا ایک نقصان ووٹروں کو خصوصاً ہوا کہ ان کے سلسلہ نمبرز اور کوڈ نمبرز سے متعلق ڈیٹا بھی ان کے موبائل فونز کے ساتھ ان کے گھروں یا گاڑیوں میں ہوتا تھا۔ اس کے لئے انہیں دوبارہ گھروں کے چکر لگانا پڑے یا گاڑیوں کی جانب جانا پڑا۔ یہ سلسلہ ہر پولنگ اسٹیشن پر دیکھنے میں آیا۔ ’’امت‘‘ نے لاہور کے اہم حلقے این اے 131 کا بھی وزٹ کیا۔ اس سلسلے میں بطور خاص چرڑگائوں میں قائم پولنگ اسٹیشن پر دیہاتی ماحول کے باوجود انتہائی خوشگوار ماحول تھا۔ واضح رہے چرڑ نامی گائوں ڈی ایچ اے لاہور سے جڑا ہوا ہے اور ترقیاتی کاموں کی بہتات کی وجہ سے یہاں خواجہ سعد رفیق کافی مقبول ہیں۔ ان کے مد مقابل عمران خان تھے۔ چرڑ میں مجموعی طور پر دس ہزار سے زائد ووٹ ہیں۔ پولنگ اسٹیشنز گائوں کے چار مختلف اسکولوں، گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول، گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول، گرامر فائونڈیشن اور لاہور الما اسکول سی بلاک میں قائم کئے گئے۔ گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول میں این اے 131 پولنگ اسٹیشن 68 قائم کیا گیا۔ جب نمائندہ امت یہاں پہنچا تو پولنگ کا وقت ختم ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ یہاں مجموعی طور پر خواتین کے 881 اور مردوں کے 1300 ووٹ تھے۔ اس سے قبل این اے 135 کے اہم انتخابی مرکز مرغزار ٹائون کے پولنگ اسٹیشنوں میں نواز لیگ کے کیمپوں میں سب سے زیادہ رونق نظر آئی۔ نواز لیگ کے بعد پی ٹی آئی اہم تھی۔ لاہور شہر میں کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقے سے انتخابی بائیکاٹ یا انتخابی عمل میں تعطل کی اطلاع سامنے آئی۔
عام انتخابات میں ملک بھر کی طرح صوبائی دارالحکومت پشاور اور خیبرپختون میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں سمیت پچیس اضلاع میں پولنگ مجموعی طور پر پرامن رہی۔ تاہم پشاور میں ہارون بلور پر ہونے والے خودکش حملے، گزشتہ روز ڈی سی پشاور کی جانب سے ایک ہزار کفن تیار کرنے کے بیان اور پولنگ والے روز کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد پشاور میں ووٹنگ کی شرح انتہائی کم رہی۔ اے این پی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ 2013ء میں ان کے امیدواروں اور کیمپوں پر حملے کئے گئے اور انہیں الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس بار ہارون بلور کی شہادت سے ان کی مہم پر اثر تو پڑا لیکن اے این پی اپنے ووٹرز نکالنے میں کامیاب رہی۔ متحدہ مجلس عمل اور پیپلز پارٹی نے بھی جہاں ماحول کو گرمایا۔ پی ٹی آئی کے ورکرز بھی متحرک رہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے کیمپوں میں زیادہ گہما گہمی نظر نہیں آئی۔ شام چار بجے تک پولنگ اسٹیشنوں پر انتہائی کم تعداد میں ووٹرز نظر آئے۔ جبکہ کوئٹہ میں خودکش حملے کی خبر نشر ہونے کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا اور پولنگ اسٹیشن خالی ہونے لگے۔ پشاور کے بورڈ بازار، رنگ روڈ، چارسدہ روڈ اور ورسک روڈ پر خواتین کے پولنگ اسٹیشن ویران رہے اور وہاں پر ٹرن آئوٹ انتہائی کم رہا۔ تاہم پشاور کے برعکس خیبرپختون کے دور افتادہ اضلاع دیر اپر کی تحصیل شرینگل، ڈوگدرہ، پاتراک، کلکوٹ، بری کوٹ، عشیری درہ، لوئر دیر میں ثمر باغ، منڈا، بن شاہی، اپر دیر کے علاقے براول بانڈی، اپر سوات کے علاقوں اتروڑ، کالام، اوشو، گبرال، ضلع شانگلہ کے دور افتادہ علاقوں، اپر کوہستان کے علاقوں، بٹ گرام، تورغر سمیت پہاڑی اضلاع میں ستّر سال بعد بڑی تعداد میں خواتین ووٹ ڈالنے کیلئے نکلیں۔ خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں پر آخری اطلاعات تک قطاریں بنی ہوئی تھیں۔ مقامی امیدواروں نے ڈی آر اوز سے پولنگ کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کیا، تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے دیر اپر سے ایم ایم اے کے امیدوار محمد علی خان اور پیپلز پارٹی کے امیدوار ملک باچہ صالح نے ٹیلی فون پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے ڈی آر او سے درخواست کی ہے کہ ان کے علاقوں میں پہلی بار خواتین بڑی تعداد میں ووٹ پول کرنے نکلی ہیں، اس لئے پولنگ کا وقت بڑھایا جائے۔ ڈی آر او نے یقین دہانی کرائی کہ پولنگ اسٹیشن کے احاطے میں موجود تمام خواتین کو آخری وقت تک ووٹ کاسٹ کرنے دیا جائے گا۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے ناقص انتظامات اور عملے کی کم تعیناتی کے سب بھی ووٹنگ عمل متاثر ہوا۔ بعض جگہوں پر متبادل کے طور پر اضافی خواتین اہلکاروں کو تعینات کرنا پڑا۔ دونوں امیدواروں کے مطابق انہوں نے ہر خواتین پولنگ اسٹیشن پر پریذائیڈنگ افسر سے خواتین کے عملے میں اضافے کی درخواست کی، جس کو مانا گیا۔ دوسری جانب صوابی میں بلجیم سے آئے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکن شاہ زیب اے این پی کے کارکنوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ جبکہ ان کے والد مختار کاکا زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد کچھ دیر کیلئے پولنگ روک دی گئی تھی۔ سیکورٹی اہلکاروں اور پاک فوج کے دستوں نے حالات پر فوری قابو پا لیا تھا۔ پشاور میں پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہوگئی تھی، تاہم گرمی کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ پشاور کے پانچ قومی اور 13 صوبائی حلقوں پر تمام امیدواروں نے ووٹروں کو نہ صرف ٹرانسپورٹ مہیا کی، بلکہ انہیں کھانے پینے کیلئے رقوم بھی فراہم کی گئیں۔ الیکشن کے دن جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے نئی روایت کی بنیاد ڈالی۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے سات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد سراج الحق نے اے این پی، مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف، ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کیمپوں کا دورہ کیا اور ان کے کارکنوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور پولنگ اسٹیشن کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔ سراج الحق کی اس خوش اخلاقی پر دیگر پارٹیوں کے کارکنوں نے سراج الحق کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ان کے ساتھ تصاویر بنائیں۔ اس رپورٹ کی تکمیل تک خیبرپختون میں مجموعی طور پر حالات پر امن تھے۔ تاہم شہری علاقوں کے برعکس پہاڑی اضلاع میں ٹرن آئوٹ زیادہ رہا۔ 2013ء کی نسبت ٹرن آئوٹ زیادہ رہنے کے سبب اس بار نتائج تاخیر سے آنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق قبائلی اضلاع میں بھی پولنگ کی شرح اچھی رہی اور صبح ہی سے پولنگ اسٹیشنوں پر عوام کا رش دیکھا گیا۔ جبکہ پہلی مرتبہ طالبان کے مقتول امیر حکیم اللہ محسود کے آبائی گاؤں میں پرامن طریقے سے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔

Comments (0)
Add Comment