امت رپورٹنگ ٹیم
کراچی کے کئی پولنگ اسٹیشنوں سے بے ضابطگیوں کی شکایات موصول ہوئیں۔ حلقہ این اے 244 کے متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر انک پیڈ اور میگنٹ انک کی کمی کی شکایات سامنے آئیں، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے انک فراہم کی گئی۔ تاہم اس سارے عمل کی وجہ سے ان پولنگ اسٹیشنوں پر بیس سے پچیس منٹ پولنگ معطل رہی۔ اسی طرح متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر اسٹیشنری کی کمی کی شکایات بھی سامنے آئیں۔ پی ایس 104میں اختر کالونی میں واقع پولنگ اسٹیشن پر پیڈ اور میگنٹ انک کی کمی کی شکایت سامنے آئی تھی۔ پی ایس 116 میں بھی پریذائیڈنگ آفیسر کی جانب سے فارم 45، پیڈ اور میگنٹ انک کی کمی کی شکایت سامنے آئی۔
این اے 251 اور پی ایس 118 کے حلقے میں ناتجربہ کار پولنگ عملے کی جانب سے سستی کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے متعدد افراد بغیر ووٹ ڈالے واپس چلے گئے۔ این اے 247 شیریں جناح کالونی میں بہت سے ووٹرز کے ووٹ پولنگ اسٹیشنوں سے غائب تھے۔ اسی حلقہ کے پی ایس 106 میں پولنگ ایجنٹ کو اندر نہیں جانے دیا گیا۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 94 میں ایم ایم اے کے پولنگ ایجنٹ کو پولنگ اسٹیشن میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ حلقہ این اے 252 اور پی ایس 122کے گلشن معمار پولنگ اسٹیشن نمبر 24 خدا کی بستی میں پولنگ بوتھ ہی نہیں بنائے گئے، جس کی وجہ سے ووٹرز کو پریشانی کا سامنا رہا۔ پی ایس 117 پر صبح 10 بج کر 15 منٹ پر پولنگ سوا دو گھنٹہ تاخیر سے شروع کی گئی۔ این اے 254 میں اصغر علی شاہ اسکول کے پولنگ اسٹیشن نمبر 70 میں ایک بیلٹ بکس میں سیل ہی نہیں لگی ہوئی تھی۔ حلقہ 245 میں 9 بج کر 53 منٹ تک آرمی کے جوان نہ پہنچنے کی شکایات تھیں۔ جبکہ اس پولنگ اسٹیشن میں پولنگ ایجنٹس ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتخابی نشان لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ این اے 243 کے حلقوں پی ایس 101 اور 102 کے 216 سے زائد پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹ کاسٹ کرنے میں سستی کی بھی شکایات سامنے آئیں۔ لائن میں لگے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنوں میں بلا کر دروازے بند کردیئے گئے تھے۔ حلقہ این اے 255 میں لیاقت آباد نمبر تین، چار اور 9 میں بھی پولنگ کی شرح انتہائی کم رہی۔ ناظم آباد پی ایس 128 کے پولنگ اسٹیشن واقع ڈگری کالج ویمن میں دوپہر دو بجے تک 17 ووٹ کاسٹ ہوئے تھے۔ این اے 256 کے صوبائی حلقے پی ایس 129 کے پولنگ اسٹیشن واقع چوہدری رحمت علی اسکول میں اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر کے پاس ناموں کی فہرست کے تین صفحات غائب تھے۔ جب ایم ایم اے سمیت دیگر پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں نے شور شرابا کیا تو ووٹرز لسٹ باہر سے منگوائی گئی، تاہم اس دوران بیس منٹ پولنگ معطل رہی۔ اسی حلقے کے پی ایس 130 کے پولنگ اسٹیشن واقع حسیب اسکول نیوکراچی میں بطور چیف پولنگ ایجنٹ تعینات جماعت اسلامی کی ایک خاتون رکن نے بتایا کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو اندر ہی نہیں جانے دیا گیا۔ اسی حلقے میں کے بی سی سی اسکول میں قائم پولنگ اسٹیشن میں اسٹاف کی کمی کے سبب پولنگ میں سست روی رہی۔
کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ 256 ضلع سینٹرل کے ایک ووٹر میاں عمر نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ اپنا اصل شناختی کارڈ لے کر ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن میں گئے تو انہیں عملے نے ریکارڈ چیک کرنے کے بعد بتایا کہ ان کا ووٹ کاسٹ ہوچکا ہے۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ انہوں نے تو ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا ہے۔ تاہم عملے نے ان کی بات سننے کے بجائے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا۔ میاں عمر کے ساتھ موجود متحدہ مجلس عمل کے ورکر شکیل نے بتایا کہ وہ میاں عمرکو لے کر دوبارہ پولنگ اسٹیشن جارہے ہیں، تاکہ معاملے پر احتجاج کیا جاسکے۔ یہ واقعہ این اے 256 کے صوبائی حلقے پی ایس 129 پاپوش نگر میں واقع میجر اکرم سیکنڈری اسکول میں قائم پولنگ اسٹیش میں پیش آیا۔ اسی طرح این اے 256 میں عبداللہ کالج اور بورڈ آفس میں قائم پولنگ اسٹیشنوں کے باہر بھی الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ یہاں پر عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کی جانب سے پولنگ اسٹیشنوں کے مرکزی دروازوں کے ساتھ ہی کیمپ لگائے گئے تھے۔ تاہم یہاں پر تعینات پولیس اور سکیورٹی اداروں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
حلقہ این اے 256 سینٹرل نارتھ ناظم آباد کے ووٹر اقبال نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹوں کی تیاری میں بدترین غفلت برتی گئی جس کے نتیجے میں سینکڑوں ووٹرز پورے دن مارے مارے پھرتے رہے لیکن انہیں اپنے پولنگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں مل سکی۔ اقبال کا مزید کہنا تھا کہ یہ کام ماضی میں ایم کیو ایم کی جانب سے 2013ء کے الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے کیا گیا تھا جسے اب تک الیکشن کمیشن درست نہیں کرسکا۔ یہا ں پر موجود دانش نامی نوجوان کا کہنا تھا کہ 2013ء میں ایک علاقے کے ایسے شہریوں کے ووٹ دوسرے علاقوں میں منتقل کرادئے گئے تھے جو مخالف امیدواروں کے زیر اثر علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ تاکہ ان کے ووٹ دور درواز کے پولنگ اسٹیشنوں میں ڈال کر اپنے زیر اثر علاقوں میں موجود پولنگ اسٹیشنوں میں مرضی کے نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ اس ضمن میں حلقہ این اے 256 سینٹرل کے ووٹر یاسین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ صبح سے اپنے خاندان کے ہمراہ ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے نکلا ہوا ہے تاکہ اپنا فریضہ پورا کرسکے لیکن دوپہر تک 5 پولنگ اسٹیشنز کے اطراف میں موجود سیاسی جماعتوں کے الیکشن کیمپ سے معلومات حاصل کرچکا تھا۔ لیکن نہ تو اس کو اپنا پولنگ اسٹیشن معلوم ہوسکا اور نہ ہی اسے اپنے بوتھ کے حوالے سے معلومات ملیں۔ اسی طرح سے جب انہوں نے کچھ لوگوں کے کہنے پر الیکشن کمیشن کی ہیلپ لائن پر میسیج کیا تو اسے وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
حلقہ این اے 256 ضلع وسطی کراچی کے علاقے شادمان ٹائون کے صوبائی حلقہ پی ایس 130 میں ڈگری کالج اور ڈگری اسکول میں بنائے گئے 9 پولنگ اسٹیشنز کے اطراف میں لگے سیاسی جماعتوں کے کیمپوں سے معلوم ہوا کہ علاقے کے 17ہزار سے زائد ووٹروں میں سے 70 فیصد ووٹروں کی پرچیاں اور کارڈز ان تک پہنچائے ہی نہیں جاسکے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فہرستوں کی تیاری اور پولنگ اسٹیشنز الاٹ کرنے کے معاملات میں کس قدر سقم موجود ہیں۔
این اے 239 الفلاح کے علاقے میں دو پریزائیڈنگ افسران نے سیکورٹی اداروں اور الیکشن کمیشن کو مطلع کیا کہ متحدہ پاکستان، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور تحریک لبیک پاکستان کے 7 پولنگ ایجنٹوں نے پولنگ اسٹیشن سے جاری ہونے والے الیکشن کمیشن کے فارم نمبر 40 اور 45 چرا لئے ہیں کہ بعد میں حتمی نتائج مرضی سے دے سکیں۔ پولیس نے ان کو حراست میں لے لیا، تاہم بعد ازاں ریٹرننگ آفیسر نے ان کو چھوڑنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ الیکشن کے دوران دوپہر میں الیکشن کمیشن کو الفلاح تھانے کی حدود میں قائم دو پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائیڈنگ افسران نے اطلاع دی کہ ان کے پولنگ اسٹیشنوں پر مختلف پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں نے الیکشن کمیشن کے دو فارمز 40 اور 45 چرا لئے ہیں۔ کورنگی ضلع کے ایس ایس پی ساجد سدوزئی بھاری نفری کے ساتھ وہاں پہنچے اور ایک خاتون سمیت 7 پولنگ ایجنٹوں کو حراست میں لے لیا، ان میں حمیرا دختر نوید احمد کا تعلق پیپلز پارٹی ، شاہ رخ ولد ظفر احمد کا متحدہ پاکستان، محمد فاروق ولد طفیل کا متحدہ پاکستان، محمد اقبال ولد مشتاق احمد کا تحریک لبیک پاکستان اور محمد احد ولد اشفاق کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔ ان کو سٹی کورٹ لے جایا گیا اور مذکورہ حلقوں کے ریٹرننگ آفیسر کے پاس لے جایا گیا، جن کے حکم پر ان کو چھوڑ دیا گیا۔
’’امت‘‘ کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 239 کا الیکشن کے حوالے سے سروے کیا گیا۔ مذکورہ حلقہ شاہ فیصل کالونی، ملیر کے علاقوں پر مشتمل ہے اور ماضی کے انتخابات میں متحدہ ان علاقوں کے مکینوں کو یرغمال بنا لیتی تھی اور صبح سویرے گھر گھر دروازے بجا کر ووٹرز کو نکالا جاتا تھا۔ پولنگ شروع ہونے سے قبل ہی انہیں قطاروں میں لے جا کر کھڑا کر دیا جاتا تھا اور مرضی سے پتنگ پر ووٹ ڈلوایا جاتا تھا۔ جبکہ متحدہ کے کارکن خود بھی ٹھپے مارتے تھے اور امیدوار کو ریکارڈ تعداد سے جتواتے تھے۔ ذرائع کے بقول اس الیکشن میں پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ پاکستان نے پرانے حربے استعمال کرنے کی تیاری کی تھی۔ تاہم سیکورٹی اداروں نے بھرپور نگرانی کر کے تمام تر دھاندلی کی کوششیں ناکام بنا دیں۔ مہاجر آبادیوں میں رینجرز اور پولیس کا گشت علی الصبح شروع کر دیا گیا تھا۔ جبکہ پولنگ اسٹیشن پر ووٹرز اور پولنگ عملے پر خاص نظریں رکھی گئی تھیں۔ ماڈل کالونی میں این اے 239 کے حلقے کے پی ایس 93 میں متحدہ اور پاک سرزمین پارٹی میں سخت مقابلہ نظر آیا۔ پولنگ اسٹیشن نمبر 187 آدم جی گرلز مڈل اسکول نزد پولیس اسٹیشن ماڈل کالونی میں پولنگ تاخیر سے شروع ہوئی اور پولنگ عملہ سست روی سے کام کرتا رہا تھا۔ ووٹرز کا کہنا تھا کہ حیلے بہانے سے تاخیر کی جا رہی تھی۔ ڈیڑھ بجے دوران سروے دیکھا گیا کہ سعود آباد ملیر میں واقع دی اسمارٹ اسکول کے پولنگ اسٹیشن نمبر 222 پر پولنگ تاخیر سے شروع ہوئی۔ ووٹرز کا کہنا ہے کہ عملہ جان بوجھ کر تاخیر کر رہا تھا۔ ملیر سٹی اردو نگر میں واقع پولنگ اسٹیشن نمبر 241 واقع پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ میں سیکورٹی کے سخت اقدامات تھے اور مختلف پارٹیوں کے کارکنوں کو بار بار گیٹ سے دور کیا جا رہا تھا۔ کھوکھراپار نمبر 2 میں واقع دعا اکیڈمی میں دو بجے تک بہت کم ووٹ ڈالے گئے تھے۔ یہاں پر مہاجر قومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ پاکستان کے حامی ووٹرز زیادہ تھے۔