مجھے قرآن کے سوا کچھ نہیں آتا:
حضرت امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اپنی تقریر میں فرماتے: ’’علمائے کرام، پیران عظام! میں نے قرآن کی ایک آیت پڑھی تو اس نے مجھے چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ میں خدا کے سب سے بڑے دشمن سے لڑ گیا اور اپنی زندگی کے حسین گیارہ سال جیل میں گزار دیئے، زندگی سفر میں کٹ گئی، لاکھوں انسانوں کے دل سے فرنگی کا خوف دور کیا، لیکن قربان جائوں تمہارے ہاضمہ کے، آپ پورا قرآن کریم اور لاکھوں احادیث ہضم کر گئے، مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔‘‘
ان زخم خوردہ لوگوں کے حاشیہ نشین، شاہ صاحب کے تابڑ توڑ عوامی حملوں سے بہت مضطرب ہوئے تو ایک ’’کرنٹے‘‘ نے کہا عطاء اللہ شاہ کو قرآن کے سوا کیا آتا ہے تو آپ نے اس کے جواب میں (غالباً موچی دروازہ میں فرمایا):
’’ہاں بھائی! واقعی قرآن کے سوا کچھ نہیں آتا۔ الحمد للہ، الحمد للہ، الحمد للہ ثم الحمد للہ! کہ مجھے قرآن کے سوا کچھ نہیں آتا۔ میری دعا ہے کہ قرآن کے سوا مجھے کچھ بھی نہ آئے، لیکن یہ صاحب جو مجھے طعنہ دیتے ہیں، ان کا یہ عالم ہے کہ خود انہیں قرآن ہی نہیں آتا۔‘‘ (حوالہ مذکور: صفحہ 427)
قابل دید منظر
مولانا عبدالماجد دریا بادی مرحومؒ اپنی والدہ مرحومہؒ کے شوق عبادت کا حال لکھتے ہیں:
’’شوق عبادت میں اپنی نظیر آپ تھیں، عمر طویل پائی، اشراق و چاشت دونوں نمازوں کا کیا ذکر ہے، تہجد تک میرے علم میں ناغہ نہ ہونے پاتی اور ہمت کا کمال یہ تھا کہ شب کے اخیر حصے میں وقت فجر سے گھنٹہ پون قبل اٹھنے کے بجائے عین درمیان شب میں اٹھ بیٹھتیں اور وضو کر کے چار یا آٹھ رکعتیں ہی نہیں پوری بارہ رکعتیں کھڑے ہو کر پڑھتیں اور پھر نماز فجر اول وقت منہ اندھیرے پڑھ ڈالتیں… نماز فجر سے اول وقت فراغت حاصل کر کے اسی جانماز پر بیٹھی ہوئے کڑوے تیل سے جلنے والے چراغ کی روشنی میں قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دیتیں اور جس مشقت و تعب سے ایک ایک لفظ اٹک اٹک کر ادا کرتیں، وہ منظر بھی دیکھنے کے قابل ہوتا۔‘‘ (آپ بیتی: صفحہ 44)