کفر کے خلاف اٹھنے والے اسلام کے پہلے ہتھیار کی نمائش

ضیاء الرحمن چترالی
مدینہ منورہ کے ایک سرکاری میوزیم میں تاریخ اسلام میں دشمن کے خلاف استعمال ہونے والے پہلے ہتھیار کی نمائش جاری ہے۔ یہ اسلحہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی وہ کمان ہے، جس سے انہوں نے اسلام میں پہلا تیر چلایا تھا۔ مدینہ منورہ کے ایک خاندان نے نسل در نسل اس تاریخی کمان کو سنبھال کر رکھا اور اب اسے سرکاری میوزیم ’’متحف عنبریہ‘‘ میں عام نمائش کے لئے رکھا گیا ہے، جسے دیکھنے کیلئے بڑی تعداد میں زائرین اس میوزیم کا رخ کر رہے ہیں۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ ان دس خوش نصیب صحابہؓ (عشرہ مبشرہ) میں سے ہیں، جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت ملی۔ انہیں ’’فاتح ایران‘‘ اور ’’تیر انداز اسلام‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آپؓ نے حضورؐ کو نبوت ملنے کے ساتویں روز اسلام قبول کیا اور زندگی بھر آنحضرتؐ خصوصی محافظ کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ ہجرت مدینہ کے آٹھ ماہ بعد (شوال 1ھ بمطابق 623ئ) حضور اکرمؐ نے ایک لشکر بطن رابغ روانہ کرتے ہوئے اسے ایک سفید پرچم مرحمت فرمایا، جسے مسطح بن اثاثہؓ نے تھام لیا۔ عبیدہؓ بن حارث بن المطلب کی زیر قیادت اس سریے میں کل 60 افراد شریک تھے۔ یہ سب مہاجرین تھے۔ اس سریہ میں مکہ کے دو آدمی مسلمانوں سے آملے، ایک مقداد بن عمرو البہرانیؓ اور دوسرے عتبہ بن غزوان المازنیؓ۔ یہ دونوں مسلمان تھے اور لشکر کے ساتھ نکلے ہی مسلمانوں کے ساتھ ملنے کے لیے تھے۔ بطن رابغ جو جحفہ سے 10 میل کے فاصلہ پر واقع ہے، اس میں احیاء نامی چشمے پر ابوسفیان بن حرب سے عبیدہ ابن حارثؓ کی جھڑپ ہوئی۔ فریقین میں صرف تیر اندازی ہوئی، نہ تلواریں بے نیام ہوئیں اور نہ صف آرائی کی نوبت پیش آئی۔ اسی سریے میں سعد بن ابی وقاصؓ نے تیر چلایا، جو اسلام میں چلایا گیا سب سے پہلا تیر تھا اور یہ سریہ بھی کفر و اسلام کا پہلا معرکہ تھا۔ پھر سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنی اس مشہور کمان کو حق و باطل کے سب سے بڑے معرکے بدر میں بھی خوب استعمال کیا اور کفار کے ناقابل شکست جنگجو سردار سعد بن العاص کو انہوں نے ہی جہنم رسید کیا۔ تاہم جو اعزاز انہیں احد کے موقع پر حاصل ہوا، اس کی نظیر کائنات میں نہیں مل سکتی۔ اس موقع پر سیدنا سعدؓ تیر اندازی سے حضورؐ کے دفاع کا حق ادا کر رہے تھے اور حضورؐ فرما رہے تھے کہ ’’اے سعد! تجھ پر میرے ماں باپ قربان، تیر چلاتے جاؤ۔‘‘ بخاری شریف کی روایت کے مطابق سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے یہ الفاظ سوائے سعدؓ کے، کسی کیلئے ارشاد نہیں فرمائے۔ سیدنا سعدؓ بعد کے معرکوں میں بھی تیر اندازی کے جوہر دکھاتے رہے۔ ایران کو انہوں نے فتح کیا اور مفتوحہ ایران کے وہ پہلے گورنر بھی تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ کیلئے نامزد چھ افراد میں وہ بھی شامل تھے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد انہوں نے سیدنا علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، لیکن گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے رہے اور 55 ھ بمطابق 674ء میں آپؓ دنیا سے رخصت ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق سیدنا سعدؓ کی مذکورہ کمان مدینہ منورہ کے ایک خاندان کے پاس نسلوں سے محفوظ تھی۔ لکڑی کی بنی اس کمان پر نبی کریمؐ کا وہ جملہ خط ثلث میں درج ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا تھا: ’’سعد! میرے ماں باپ تجھ پر قربان‘‘۔ تاہم طویل زمانہ گزرنے کے باعث اس لکڑی کے بعض حصے بوسیدہ ہو چکے ہیں، جبکہ لکھی ہوئی عبارت کے بھی بعض حصے مٹ چکے ہیں۔ جس خاندان کے پاس یہ کمان محفوظ تھی، اس کے ایک فرد فتح الرحمن ابو الجود انصاری کا کہنا ہے: ’’یہ کمان 40 برس سے میرے والد کے پاس محفوظ تھی۔ انہوں نے اسے اپنی بیٹھک میں لٹکا رکھا تھا، جسے دیکھنے کیلئے دور دراز سے لوگ آتے تھے۔ جبکہ آثار قدیمہ کے ماہرین بھی وقتاً فوقتاً آتے اور اس پر تحقیق کرتے رہے ہیں۔ یہ تاریخی کمان ہمارے خاندان میں قدیم زمانے سے محفوظ ہے۔ اس کے متعلق ہم نے اپنے بزرگوں سے مختلف قصے سن رکھے ہیں۔ تاہم اب حکومت نے ہم سے درخواست کی کہ ہم اسے سرکاری تحویل میں دے دیں، تاکہ گھر میں آتشزدگی وغیرہ کی صورت میں یہ قیمتی متاع ضائع نہ ہوجائے۔ ہم نے کافی سوچ بچار کے بعد اسے حکومت کے حوالے کر دیا۔ اب اسے ’’العنبریہ میوزیم‘‘ میں رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ میوزیم میں اس تاریخی کمان کو دیکھنے کیلئے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کمان کو شیشے کے فریم میں رکھا گیا ہے۔ جس کے ساتھ اس کا تاریخی پس منظر اور سیدنا سعدؓ کا مختصر تعارف بھی لکھ کر لگایا گیا ہے۔ کمان کی صرف لکڑی ہی باقی ہے، اس کے تانت اور تانت باندھنے کی جگہ مرور ایام کی نذر ہو چکی ہے۔ مذکورہ میوزیم میں سیدنا عثمانؓ کے مصحف سمیت کئی تاریخی نوادارت کو محفوظ بنایا گیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment