خلیفہ ہارون الرشید ایک مرتبہ حج کے موقعے پر مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور امام مالکؒ سے ملاقات کے لیے گئے۔ خلیفہ بہت عزت اور احترام سے پیش آیا۔ اپنے دونوں صاحب زادوں کو حکم دیا: ’’امام صاحب سے حدیث پڑھو۔‘‘
اس پر امام صاحب نے فرمایا: ’’امیرالمومنین! علم کا احترام واجب ہے، اس کے لیے عالم کے پاس جانا چاہیے، نہ کہ اسے اپنے پاس بلانا چاہیے۔‘‘
خلیفہ نے امام صاحبؒ کی اس بات کو تسلیم کیا اور صاحب زادوں کو آپ کی خدمت میں بھیج دیا اور ساتھ ہی کہلوا بھیجا:
’’آپ انہیں حدیث پڑھ کر سنائیں۔‘‘
حضرت امام مالک بن انسؒ نے جواب میں کہلابھیجا:
’’اس شہر میں استاد کے سامنے پڑھا جاتا ہے، جب بچہ غلطی کرتا ہے تو استاد غلطی درست کراتا ہے۔‘‘
صاحب زادوں نے خلیفہ کو اس بات کی خبر دی، اب خلیفہ نے امام مالکؒ کو پیغام بھیجا:
’’آپ نے دونوں صاحب زادوں کو بلانے کے بعد انہیں پڑھانے سے انکار کر دیا۔‘‘
امام صاحبؒ نے جواب میں کہلوایا:
’’امیر المومنین! میں نے ابن شہابؒ سے سنا ہے کہ ہم نے سعید بن مسیبؒ، ابو مسلمہؒ، عروہ بن زبیرؒ، سالمؒ، خارجہؒ، سلیمانؒ اور نافعؒ سے اسی طرح اس مقام میں علم حاصل کیا ہے اور پھر ابن ہرمزؒ، ابوزنادؒ، ربیعہؒ اور ابن شہابؒ کے سامنے حدیث پڑھی جاتی تھی، وہ حضرات خود نہیں پڑھتے تھے۔‘‘
یہ پیغام سن کر ہارون الرشید نے صاحب زادوں سے کہا:
’’تم خود جا کر پڑھو۔‘‘
ابو محمد یحیٰی بن یحیٰیؒ اندلس سے چل کر امام مالکؒ کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے اور آپ کے درس میں شریک ہوئے، یہ اندلس کے علماء میں بہت رتبے اور مقام کے مالک تھے۔ ایک دن دوران درس شور مچا:
’’ہاتھی آیا ہے … ہاتھی آیا ہے۔‘‘
یہ شور سن کر تمام طلبہ اٹھ کر ہاتھی کو دیکھنے کے لیے بھاگ نکلے، بس ابو محمد یحیٰٰی اپنی جگہ بیٹھے رہے، امام مالکؒ نے ان سے محبت بھرے انداز میں کہا:
’’جاؤ! تم بھی ہاتھی دیکھ لو۔‘‘
یحییٰ بن یحییٰ نے جواب دیا:
’’حضرت! میں اپنے شہر سے آپ کو دیکھنے اور آپ سے علم وادب سیکھنے کے لیے آیا ہوں… ہاتھی دیکھنے کے لیے نہیں آیا۔‘‘
امام صاحبؒ اپنے لائق شاگرد کا یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے … آپؒ نے انہیں اندلس کے عاقل کا خطاب دیا … یہ یحییٰؒ جب اندلس پہنچے تو وہاں ان کے علم و فضل کی شہرت اس قدر ہوئی کہ بڑے بڑے علماء ان سے پیچھے رہ گئے۔
حضرت سری سقطیؒ ہمیشہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ کو کچھ نہ کچھ بھیجتے رہتے تھے اور وہ ہر وقت قبول کرنے سے انکار کردیتے تھے … ایک مرتبہ ایسا ہی ہوا تو سری سقطی نے کہا:
’’اے احمد! رد کرنے کی آفت سے بچ۔‘‘
یہ سن کر امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا:
’’کیا کہا … ذرا پھر دہراؤ۔‘‘
سری سقطیؒ نے پھر وہی الفاظ دہرائے تو امام بن حنبلؒ نے کہا:
اچھا تو تم اسے سنبھال کر رکھو، فی الحال میرے پاس ایک ماہ کا خرچ موجود ہے، یہ ختم ہو جائے تو میں تمہاری چیز وصول کرلوں گا۔‘‘ (جاری ہے)