جنت کا فرشتہ مدد کو پہنچا

حضرت ابراہیم خواصؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سفر کر رہا تھا کہ مجھے شدت کی پیاس محسوس ہوئی، یہاں تک کہ پیاس کی بنا پر میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ پس تھوڑی دیر بعد میرے چہرے پر پانی گرا، جس کی وجہ سے میں نے ٹھنڈک محسوس کی۔ پس میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان ہے، جو عمدہ گھوڑے پر سوار ہے۔ اس نے سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور زرد رنگ کا عمامہ بندھا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں پانی کا ایک پیالہ ہے۔ پس اس نے مجھے پانی پلایا اور کہا میرے گھوڑے پیچھے سوار ہوجایئے۔ پس میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا، پس اس نوجوان نے مجھے سلام کیا اور پوچھا کہاں جانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ مدینہ منورہ، اس نے کہا اُتریئے، یہی مدینہ منورہ ہے اور حضورؐ کی بارگاہ عالیہ میں عرض کرنا کہ رضوان خازن جنت نے آپؐ کو سلام عرض کیا ہے۔ علامہ دمیریؒ (صاحب کتاب) فرماتے ہیں کہ یہ بہت بڑی کرامت ہے۔ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل و کرم فرماتا ہے۔ (حیات الحیوان ص 552)
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کا واقعہ:
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ سلطنت بلخ کے بادشاہ تھے۔ رب تعالیٰ کی محبت نے اثر کیا تو حکومت بلخ سے دل اچاٹ ہو گیا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ ایک رات بالا خانے پر سو رہے تھے۔ حق تعالیٰ شانہ نے چند فرشتوں کو انسانوں کی صورت میں ان کے پاس بھیجا۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ ان کے آنے کی آہٹ پا کر سوچنے لگے کہ شاہی محل میں رات کے وقت کسی انسان کی ایسی ہمت و جرأت نہیں ہو سکتی، یہ شاید جن ہیں۔
دریافت فرمایا: آپ کون لوگ ہیں۔ کیسے تشریف لائے ہیں؟ کہا ہم اپنے اونٹ تلاش کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اونٹ بالا خانے پر کیسے جست (چھلانگ) لگا سکتا ہے۔ واردین غیب نے (غیب سے آنے والے) نے کہا بے شک اونٹ بالا خانے پر نہیں آ سکتا، لیکن آپ اس تخت شاہی پر خدا تعالیٰ کو تلاش کیسے کر سکتے ہیں؟ مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں۔
ترجمہ: یعنی اصلی فکر وہ ہے جو راستہ کھول دے اور اصلی راستہ وہ ہے جو شہنشاہ حقیقی تک پہنچا دے۔ پھر حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کے سامنے سے یہ غیب سے آنے والے یہ کہہ کر اسی وقت نظر سے غائب ہو گئے اور ادھر حضرت کے دل پر ایک چوٹ لگ گئی۔ (آخر شاہی دماغ تھا اور قسمت نے بھی ساتھ دیا) اور آپؒ نے خدا جل شانہ کی محبت میں، حکومت تخت اور تاج شاہی سب کچھ ترک کر دیا (یاد رہے کہ لاکھوںِ کروڑوں میں سے یہ کیفیت کسی کو نصیب ہوتی ہے) آپ نے سلطنت چھوڑ دی تو رب العزت نے ان کی قدر و منزلت فرمائی۔ پہلے صرف ایک محدود حکومت کے مالک و بادشاہ تھے۔ اب خشکی اور تری پر رب تعالیٰ نے حکومت عطا فرمائی۔ ارشاد خداوندی ہے، ترجمہ: یہ خدا کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ (القرآن)
حضرت شیخ جیلانیؒ کی وصیت:
اطاعت خداوندی کو لازم کر۔ نہ کسی سے خوف کر نہ طمع رکھ۔ ساری حاجتیں حق تعالیٰ شانہ کے حوالے کر، اسی سے مانگ اور اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہ رکھ۔ دنیا دار دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور دنیا اولیاء کے پیچھے۔ ہر متقی اور پرہیزگار شخص حضورؐ کی آل ہے۔ مومن جس قدر بوڑھا ہوتا ہے، اس کا ایمان طاقتور ہوتا ہے۔ (بحوالہ محزن اخلاق)
قصیدہ غوثیہ میں حضرت شیخؒ فرماتے ہیں:
ہر ولی کا مقام ہے اور میرا مقام حضورؐ کی اتباع ہے، جو بدر (چودہویں رات کا چاند) کامل ہیں۔ میرا نام عبد القادر جیلانی مشہور ہے اور میرے جد پاک صاحب کمال تھے۔
ارشاد خداوندی ہے:
ترجمہ: ’’خبردار بلاشبہ خدا کے ولی ہیں، ان پر بروز محشر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ (پ 11، آیت 12)
قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا، ترجمہ: ’’رات کے وقت ان کے پہلو بستروں سے خالی رہتے ہیں اور صبح و شام خدا کو اس کی رضا جوئی کیلئے پکارتے پھرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اولیاء وہ ہیں جو تہجد گزار اور نوافل کے پابند ہوتے ہیں۔ ہر مکان کے لئے ستون ہوا کرتے ہیں۔ جن پر چھت کی بقا کا مدار ہوتا ہے۔ دنیا کے مکان کے ستون اولیاء ہیں۔ جب تک دنیا میں اولیاء میں سے ایک ولی بھی باقی رہے گا، قیامت قائم نہ ہوگی۔ قرآن کریم میں اگر توحید و رسالت نیز صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظام کا ذکر ہے تو اولیاء کا ذکر بھی موجود ہے۔ اولیاء کی اتباع اور ذکر خیر سے سنت نبویؐ پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اولیاء تعلیمات نبویؐ کے ترجمان اور عملی طور پر نمونہ ہوتے ہیں۔ حضرت امام سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ نیک لوگوں کے تذکروں کے وقت رب تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment