ایک مبارک خواب:
سیدنامعاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں، ایک دن نبی اکرمؐ (نماز فجر) کے لیے تاخیر سے تشریف لائے۔ تب تکبیر کہی گئی اور آپؐ نے نماز پڑھائی اور نماز میں اختصار سے کام لیا، پھر جب آپؐ نے سلام پھیرا تو ارشاد فرمایا:
’’سب لوگ اپنی جگہ بیٹھے رہیں۔‘‘
بعد ازاں آپؐ نے فرمایا: ’’میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ آج صبح مجھے دیر کیوں ہوگئی۔ میں رات کو اٹھا، وضو کیا، جتنی نماز مقدر میں تھی ادا کی۔ نماز ہی میں مجھ پر اونگھ جیسی حالت طاری ہوگئی، بدن بوجھل ہوگیا، ناگہاں میں دیکھتا ہوں کہ خدا عزو جل بہترین صورت میں میرے سامنے جلوہ نما ہے اور فرما رہا ہے: اے محمد! میں نے عرض کیا: اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: بتلاؤ اس وقت ملاء اعلیٰ (اوپر والے یعنی فرشتے) کس بارے میں بات چیت کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پھر میں نے دیکھا کہ خدا تبارک و تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا، یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی۔ پھر میرے سامنے ہر چیز اجاگر ہوگئی اور میں نے ہر چیز پہچان لی۔ خدا تعالیٰ نے پھر فرمایا: اے محمد! میں نے پھر کہا: لبیک اے پروردگار! فرمایا: بتلاؤ ملاء اعلیٰ کس امر پر گفتگو کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کفاروں کے بارے میں۔ پوچھا: بتلاؤ کفارے کیا ہیں؟ میں نے کہا: چل کر نماز باجماعت میں شریک ہونا، نمازوں کے بعد مساجد میں بیٹھے رہنا، ناپسندیدہ اوقات میں مکمل اور صحیح وضو کرنا۔ حق تعالیٰ نے دریافت فرمایا: اس کے بعد فرشتے کس کے بارے میں گفتگو کرتے تھے؟ میں نے عرض کیا: درجات کے بارے میں۔ فرمایا: درجات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا: کھانا کھلانا، ملائم گفتگو کرنا، اس وقت نماز پڑھنا جب لوگ محو آرام ہوں۔ پھر حق تعالیٰ نے فرمایا: کچھ مانگو! تو میں نے کہا: ’’اے پروردگار! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں سے بچنے کی توفیق اور مسکینوں کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما دے اور یہ کہ جب تو کسی قوم کو فتنے میں ڈالنا چاہے تو مجھے اس فتنے میں پڑنے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھالے۔ الٰہی! میں تیری بارگاہ عالی میں سوال کرتا ہوں کہ مجھے اپنی محبت عطا فرما اور ان کی محبت بھی دے جن سے تو محبت کرتا ہے اور ان اعمال کی چاہت دے جو تیری محبت سے نزدیک کرنے والے ہیں۔ پھر رسول کریمؐ نے مقتدیوں سے فرمایا: سنو یہ سب حق اور سچ ہے، تم اسے سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔ (جامع الترمذی، حدیث: 3235)(جاری ہے)