حافظ ابن کثیرؒ نے روایات مذکورہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ آخرت میں ان روایات سے تو یہ ثابت ہوا کہ آبائے صالحین کی برکت سے ان کی اولاد کو فائدہ پہنچے گا اور عمل میں ان کا درجہ کم ہونے کے باوجود اپنے آباء صالحین کے درجے میں پہنچا دیئے جائیں گے ، اس کا دوسرا رخ کہ اولاد صالحین کی وجہ سے والدین کو نفع پہنچے یہ بھی حدیث سے ثابت ہے۔
مسند احمد میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کا درجہ جنت میں اس کے عمل کی مناسبت سے بہت اونچا کر دیں گے، تو یہ دریافت کرے گا کہ میرے پروردگار مجھے یہ مقام اور درجہ کہاں سے مل گیا (میرا عمل تو اس قابل نہ تھا) تو جواب یہ دیا جائے گا کہ تمہاری اولاد نے تمہارے لئے استغفار و دعا کی اس کا یہ اثر ہے۔ (رواہ الامام احمد وقال ابن کثیر اسنادہ صحیح و لم یخرجوہ ولکن لہ شاہد
فی صحیح مسلم عن ابی ہریرہؓ)
وَمَآ اَلَتْنٰھُمْ… الت اور ایلات کے لفظی معنی کم کرنے کے ہیں (قرطبی ) معنی آیت کے یہ ہیں کہ صالحین کی اولاد کو ان کے درجہ عمل سے بڑھا کر صالحین کے ساتھ ملحق کرنے کے لئے ایسا نہیں کیا گیا کہ صالحین کے عمل میں سے کچھ کم کر کے ان کی اولاد کا عمل پورا کیا جاتا بلکہ اپنے فضل سے ان کے برابر کر دیا گیا۔
کُلُّ امْرِی … یعنی ہر انسان اپنے عمل میں محبوس ہوگا، ایسا نہیں ہوگا کہ کسی دوسرے کا گناہ اس کے سر ڈال دیا جائے، یعنی جس طرح آیت سابقہ میں اولاد صالحین کو صالحین کی خاطر سے درجہ بڑھا دیا گیا، یہ عمل حسنات میں تو ہوگا، سیئات میں ایک کے گناہ کا کوئی اثر دوسرے پر نہ پڑے گا۔ (ابن کثیر)(جاری ہے)