بزرگان دین کے ایمان افروز واقعات

امام شافعیؒ بغداد میں قیام پذیر تھے… اس وقت خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دربار کے خاص آدمی فضل بن ربیع کو حکم دیا:
’’محمد بن ادریس حجازی (یعنی امام شافعیؒ) کو ابھی میرے پاس لاؤ۔‘‘
جس وقت ہارون رشید نے یہ حکم دیا، اس وقت وہ اپنے خاص لوگوں کے درمیان میں بیٹھا تھا، سامنے تلوار رکھی تھی۔
فضل بن ربیع ڈرتے ڈرتے امام شافعیؒ کی خدمت میں گئے، وہ اس وقت نماز میں مشغول تھے، فارغ ہوئے تو فضل نے کہا:
’’آپ کو امیر المومنین یاد کررہے ہیں۔‘‘
امام شافعیؒ نے فوراً فرمایا: ’’بسم اللہ۔‘‘
پھر دعا پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے، فضل بن ربیع آگے آگے تھے اور امام صاحبؒ اس کے پیچھے چل رہے تھے، محل کے دروازے پر پہنچ کر فضل اندر گئے، ان کا خیال تھا، خلیفہ امام صاحبؒ کے استقبال کے لیے دروازے پر کھڑا ہوگا، لیکن ایسا نہیں تھا … فضل نے انہیں امام صاحبؒ کے آنے کی خبر دی … ہارون رشید نے سن کر کہا: ’’انہیں اندر لے آؤ۔‘‘
امام صاحبؒ جب اندر پہنچے تو وہ یک دم اٹھ کھڑے ہوئے، ان کا چہرہ روشن ہوگیا، آگے بڑھ کر امام صاحبؒ سے مصافحہ کیا اور کہنے لگے…
’’حضرت! ہمیں یہ حق نہیں تھا کہ آپ کو قاصد کے ذریعے بلوائیں، مجھے خود حاضر ہونا چاہیے تھا … ہم نے آپ کے لیے دس ہزار دینار کا حکم دیا ہے … ہم یہ رقم آپ کے ساتھ بھجوا رہے ہیں۔‘‘
یہ سن کر امام صاحب نے فرمایا: ’’مجھے ان کی ضرورت نہیں!‘‘
جب آپؒ بٖغداد سے مصر گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپؒ کے لیے تین ہزار دینار کا بندوبست کیا اور آپ کی خدمت میں پیش کیے، آپ نے وہ دینار فوراً قبول کر لیے، اس پر کسی نے آپ سے پوچھا:
’’آپ نے خلیفہ ہارون رشید سے تو دینار لیے نہیں اور یہ قبول فرمالیے، یہ کیوں؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’وہ سلطانی احسان تھا … یہ اہل علم کی طرف سے علمی تعاون ہے۔‘‘(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment