بایزید بسطامیؒ اور بڑھیا

حضرت بایزید بسطامیؒ یگانہ روزگار (بے مثل) عظیم بزرگ تھے۔ وہ اپنے زمانے کے اولیائے کرام کے سردار تھے اور زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔ لوگوں نے آپ کے زہد و تقویٰ اور کرامات سے متاثر ہو کر ایک روز دریافت کیا کہ آپ کو اس مرتبے پر سرفراز ہونے کی راہ دکھانے والا یعنی پیرو مرشد کون ہے؟
جواب میں آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ ایک بوڑھی عورت۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو فرمایا کہ وہ اس طرح کہ میں سلوک اور تلاش حق کی ابتدائی منزل میں جنگل میں تھا کہ ایک عمر رسیدہ عورت سر پر آٹا رکھے ہوئے ملی اور مجھ سے کہنے لگی کہ میری امداد کرو اور یہ آٹا جو وزنی ہے، میرے مکان تک پہنچا دو۔ اسی دوران مجھے جنگل میں ایک شیر نظر آ گیا اور میں نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر بڑھیا سے کہا جائو یہ تمہارے گھر تمہیں بمع آٹا پہنچا دے گا۔ لیکن یہ بتاتی جائو کہ شہر میں جب شیر پر سوار ہو کر جائو گی تو لوگوں سے کیا کہو گی۔
بڑھیا نے کہا میں یہ کہوں گی کہ آج جنگل میں میری ملاقات ایک خود نما (یعنی اپنی نمائش کرنے والا) ظالم سے ہو گئی تھی۔ یہ سارا کام اسی کا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ تونے بجائے شکریہ ادا کرنے کے مجھے خود نما اور ظالم کا خطاب کیوں دیا؟ بڑھیا نے کہا کہ شریعت محمدیہؐ نے شیر کو مکلف نہیں بنایا (یعنی وہ مخلوق جس سے روز قیامت کوئی حساب و کتاب نہ ہوگا اور نہ ہی ہماری خدمت انہیں سونپی گئی ہے وغیرہ) اور تم ایک غیر مکلف کی پشت پر اپنا بوجھ لاد رہے ہو اور یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے اور دوسرا عیب تمہارے اندر یہ ہے کہ خود کو لوگوں پر صاحب کرامت ظاہر کرنا چاہتے ہو اور اسی کا نام خود نمائی ہے۔
چنانچہ میں نے بڑھیا (جو دراصل خدا کی ولیہ تھی) کی جانب سے ایسی نصیحت و عبرت حاصل کی کہ ہمیشہ ایسی چیزوں کے اظہار سے توبہ کر لی۔ بس اسی وجہ سے میں اس ولی صفت والی بڑھیا کو اپنا رہبر و مرشد سمجھتا ہوں (آگے حضرت بایزید ؒ اظہار نعمت کے طور پر فرماتے ہیں) اور اب میری یہ حالت ہے کہ ہر کرامت میں، میں رب تعالیٰ کی تصدیق کا طالب ہوں اور اس تصدیق کے لئے ایک نور ظاہر ہوتا ہے۔ اس پر سبز حروف میں یہ کلمات طیبات لکھے ہوتے ہیں۔
ترجمہ : خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ نوحؑ اس کا برگزیدہ ہے۔ ابراہیمؑ اس کا خلیل ہے۔ موسیٰؑ اس کا کلیم (ہمکلام) ہے۔ عیسیٰ ؑ اس کی روح ہے۔
حضرت بایزید بسطامیؒ نے فرمایا کہ ان کلمات سے جو مجھے نظر آتے ہیں۔ یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ پانچ شہادتیں میری کرامت کی شاہد ہیں۔ (کرامات اولیا)

Comments (0)
Add Comment