امت رپورٹ
مسلم لیگ (ن) دھاندلی کے خلاف نہ صرف بھرپور احتجاج کرے گی، بلکہ احتجاجی تحریک چلانے کیلئے اس نے نیا سیاسی اتحاد بنانے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد نیا سیاسی اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور یہ کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور ایم کیو ایم پاکستان سے بھی رابطے شروع کر دیئے گئے ہیں۔ جبکہ محمود خان اچکزئی کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے پہلے ہی نواز لیگ کے رابطے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں چونکہ اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی خواہاں ہیں، اور وہ زیادہ عرصہ حکومت سے باہر نہیں رہ سکتیں، اس لئے امکان ہے کہ وہ نواز لیگ کی احتجاجی تحریک میں ساتھ دینے کے بجائے دھاندلی کے خلاف محض لفظی گولہ پر اکتفا کریں۔
نواز لیگ کے صدر شہباز شریف نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے جمہوری حق کے ساتھ نا انصافی برداشت نہیں کریں گے اور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ کی گئی اس زیادتی کے انتہائی منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اہم لیگی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نون لیگ نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے احتجاج کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس حوالے سے قانونی اور سیاسی دونوں راستے اختیار کیے جائیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق احتجاجی حکمت عملی طے کرنے اور نئی صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے ہی شہباز شریف نے میاں نواز شریف سے اڈیالہ جیل میں جمعرات کو (گزشتہ روز) ملاقات کی اور وہیں احتجاجی حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سے رابطے بھی شروع کر دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ نون لیگ کی خواہش ہے کہ تحریک لبیک کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے۔ تاہم چونکہ تحریک لبیک کو ختم نبوت کے حوالے سے نواز لیگ سے تحفظات ہیں، اس لیے قوی امکان ہے کہ وہ ساتھ نہ دے، لیکن اس سے رابطہ ضرور کیا جائے گا۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم بھی نواز لیگ کا ساتھ دے کر مقتدر حلقوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں کہ یہ دونوں پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ سے وربت کی شدید خوہش رکھتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی پی اور ایم کیوایم زیادہ عرصے حکومت کے بغیر بھی نہیں رہ سکتیں۔ وہ دھاندلی کیخلاف احتجاج کیلئے نئے اتحاد میں شامل ہوکر حکومت میں شامل ہونے کا سنہری موقع بھی ضائع نہیں کریں گی۔ ذرائع کے مطابق ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی جس کے پاس انتظامی اور افرادی قوت ہے، نئے سیاسی اتحاد میں شامہ ہوئی تو اس اتحاد میں جان پڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی اس اتحاد کی جان ہوں گے۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کیلئے مشکلات یہ ہیں کہ پارٹی قائد نواز شریف کے لیے موثر احتجاج نہ کرنے کے سبب لیگی کارکنوں کے حوصلے پست ہوگئے ہیں۔ نواز شریف جارحانہ سیاست کی مہارت رکھتے ہیں۔ جبکہ شہباز شریف ہر کام سرکاری سہولتوں کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں۔ اور پھر چونکہ انہوں نے ہمیشہ مصلحت اور مفاہمت کی بات کی ہے، اس لئے ان کے لیے مزاحمت کی سیاست کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ مزاحمت کی سیاست کرنے کے لیے پارٹی کو ہر سطح پر منظم کرنا ضروری ہے۔ اس وقت صرف شہباز شریف نواز لیگ کے صدر ہیں۔ ان کے بعد کوئی دوسرا بڑا عہدیدار موجود نہیں۔ پارٹی کا سیکریٹری جنرل کون ہے، کسی کو علم نہیں۔ سیکریٹری اطلاعات کے طور پر مریم اورنگ زیب کا نام آتا ہے، لیکن وہ پارٹی میں چوتھے درجے کی لیڈر ہیں، جو از خود کہیں سے منتخب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے، جہاں نواز لیگ کی جڑیں ہیں۔ لیکن مسلم لیگ پنجاب کا بھی کوئی صدر نہیں اور کوئی سیکریٹری نہیں۔ شہبازشریف اور حمزہ شہباز ہی پارٹی کو چلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ احتجاجی تحریک کے لیے پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہونا چاہیے، اور یہ موجودہ حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ اب پارٹی رہنمائوں کے ساتھ انتقامی کارروائیاں تیز ہوں گی۔ شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ اگر تنظیمی ڈھانچہ نہ ہوا تو ان دونوں حضرات کی گرفتاری کے بعد پارٹی بکھر جائے گی اور احتجاجی تحریک کو لے کر چلنے کے لیے کوئی لیڈر نہیں ہوگا۔ مجلس عمل اور محمود خان اچکزئی افرادی قوت تو مہیا کریں گے لیکن سرمایہ نواز لیگ کو ہی دینا پڑے گا۔ ذرائع نے کہا کہ میاں نواز شریف کے جیل جانے کے بعد شہباز شریف، پی ٹی آئی کی سیاسی چالوں کو سمجھ نہیں سکے اور نہ وہ ان کا موثر انداز سے توڑ کرسکے۔ ایک اور سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ جو سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش ہے، اس کا مقصد صرف دھاندلی کے خلاف احتجاج ہی نہیں ہے، بلکہ آئندہ انتخابات تک نواز لیگ کے وجود کو قائم رکھنا بھی ہے اور اسے مضبوط بنانا بھی ہے۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست پر کئی پارٹی رہنما باغی ہو رہے ہیں اور ایک فارورڈ بلاک بنانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن جیتنے والوں نے تحریک انصاف کی قیادت سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ اس حوالے سے این اے 171 سے کامیاب لیگی امیدوار ریاض حسین پیر زادہ کا نام لیا جارہا ہے، جو سیاسی وفاداریاں بدلنے کے حوالے سے بہت مشہور ہیں۔ وہ پہلے پیپلز پارٹی، نیشنل الائنس اور مسلم لیگ ق کے رکن قومی اسمبلی رہے ہیں۔ موصوف سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔ نو منتخب قومی اسمبلی اراکین کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے24 نو منتخب اراکین اسمبلی نے بھی پی ٹی آئی قیادت سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ اس ضمن میں آئندہ دو چار دنوں میں ہی رابطہ کرنے والے رہنماؤں کو ساتھ رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق فیصلہ کر لیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭