امت رپورٹ
پیپلز پارٹی کے بغیر بننے والی کمزور حکومت پر خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی- زرداری کو اتحادی حکومت سے باہر رکھنے کا پلان اے تبدیل ہو سکتا ہے- پی ٹی آئی رہنمائوں کی اکثریت پنجاب میں حکومت بنانے کی حامی- آزاد ارکان کی مدد سے مقاصد حاصل نہ ہوئے تو نون لیگ میں فارورڈ بلاک بنایا جائے گا- رپورٹ
مرکز میں ایک مضبوط مخلوط حکومت بنانے کے لئے آصف علی زرداری، عمران خان کی مجبوری بن گئے ہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان نے متعدد بار یہ اعلان کیا تھا کہ اگر وہ الیکشن جیت گئے تو آصف زرداری کی پیپلز پارٹی ان کی مخلوط حکومت میں شامل نہیں ہو گی۔ اس سارے کھیل پر نظر رکھنے والے باخبر ذرائع نے تصدیق کی کہ نئی حکومت کے پلان میں پیپلز پارٹی کا کوئی حصہ نہیں، کیونکہ اس سے پی ٹی آئی اور ان کے ہمنوائوں کا کرپشن کے خلاف ’’جہاد‘‘ کا دعویٰ متاثر ہو گا۔ تاہم ان ہی ذرائع کے بقول پلان اے کے تحت تحریک انصاف پہلے آزاد امیدواروں اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت بنانے کی کوشش کرے گی۔ اس میں کامیابی نہ مل سکی تو پھر آخری آپشن کے طور پر پیپلز پارٹی سے رجوع کیا جائے گا۔ آصف زرداری کے بارے میں عمران خان کے دو ٹوک موقف پر ذرائع کا کہنا تھا کہ جس طرح چیئرمین سینیٹ لانے کے لئے دونوں کو ایک کر دیا گیا تھا، لہٰذا دوبارہ یہ کہانی دوہرانا مشکل نہیں۔ اگر بحالت مجبوری اس نوعیت کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو اس سے عمران خان اور آصف زرداری انکار نہیں کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں موجود تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق مرکز میں حکومت سازی کے لئے پی ٹی آئی نے آج جمعہ سے آزاد ارکان قومی اسمبلی اور مسلم لیگ ’’ق‘‘ سمیت دیگر چھوٹی پارٹیوں سے رابطے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کے لکھے جانے تک تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 119 سیٹوں میں آگے تھی (مزید حلقوں کے نتائج آنا باقی ہیں)۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کی اصل نظر آزاد امیدواروں پر ہے، جنہوں نے اب تک قومی اسمبلی کی دو درجن سے زائد سیٹیں حاصل کی ہیں۔ جبکہ چند روز بعد ایم ایم اے کے ارکان توڑنے کے لئے بھی رابطوں پر غور کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے خیال میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ایم ایم اے دوبارہ بکھرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی نظر ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی کے ارکان پر ہے، جو پہلے بھی کے پی کے میں تحریک انصاف کی اتحادی رہ چکی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کے نتائج کا منظر نامہ واضح ہو جانے کے بعد تحریک انصاف نے اپنی مخلوط حکومت کے لئے ایم کیو ایم پاکستان سے بھی رابطے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد اب تک چھ سے سات ہے۔ جبکہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس سے اس سلسلے میں پہلے ہی تحریک انصاف کی انڈر اسٹینڈنگ چل رہی ہے۔ حالانکہ جی ڈی اے توقع کے مطابق سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اب تک قومی اسمبلی میں اس کے محض دو ارکان کی کامیابی کا اعلان سامنے آیا ہے۔ اس طرح ایک سیٹ کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی بھی مایوس کن کارکردگی دکھا سکی۔ ذرائع کے مطابق جمعرات کے روز پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت مرکز میں حکومت سازی کے لئے مطلوبہ نمبر گیم کے حصول پر صلاح مشورے کرتی رہی اور رابطوں کے طریقہ کار پر غور کیا گیا۔ ذرائع کے بقول اصل مشکل یہ ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر تو سامنے آئی ہے، تاہم سادہ اکثریت حاصل کرنے سے ابھی بہت دور ہے اور اس کے لئے اسے دو درجن سے زائد سیٹوں کی ضرورت ہے۔ آزاد اور ہم خیال پارٹیوں کی مدد سے پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ تاہم یہ ایک کمزور مخلوط حکومت ہو گی، جس پر تحریک عدم اعتماد کے خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ پی ٹی آئی کی خواہش ہے کہ وہ کم از کم ڈیڑھ سو سے زائد ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے بعد اعتماد کے ووٹ کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کے منتخب ارکان اسمبلی سے بھی رابطے کرنے کے لئے بیک ڈور چینل استعمال کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر مطلوبہ تعداد میں نون لیگ کے ارکان اسمبلی کو توڑنے میں ناکامی کا سامنا رہا تو پھر یہی وہ مرحلہ ہو گا جو زرداری کو عمران کی مجبوری بنا دے گا۔ فی الحال اس طرح کی صورت حال سے پی ٹی آئی بچنا چاہتی ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کے بدلے آصف زرداری جو کچھ مانگیں گے، اسے پورا کرنا پی ٹی آئی کے لئے بہت دشوار ہو گا اور پھر اس صورت میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف احتساب کے حوالے سے جو گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، وہ بھی بری طرح متاثر ہو گا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس حوالے سے جو ابتدائی مشاورت ہوئی تھی، اس میں پارٹی رہنمائوں کی اکثریت نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو نون لیگ کے حوالے نہ کرنے کا موقف اپنایا۔ جس سے پارٹی چیئرمین نے اتفاق کیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ جس طرح 2013ء کے الیکشن کے بعد خیبر پختون میں حکومت بنانے کی پوزیشن کے باوجود نواز شریف نے پی ٹی آئی کو یہ موقع فراہم کیا تھا، شاید تحریک انصاف بھی اسی نوعیت کا فیصلہ کرے۔ تاہم ذرائع کے مطابق پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنانے کے حامی پارٹی رہنمائوں کا موقف ہے کہ اگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت نون لیگ کے حوالے کر دی گئی تو اس کے نتیجے میں مرکز میں حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ ذرائع کے بقول اگرچہ پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے بھی تحریک انصاف نے آزاد امیدواروں اور قاف لیگ سمیت دیگر چھوٹی بڑی ہم خیال پارٹیوں سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم پہلے مرحلے میں وہ مرکز میں حکومت سازی پر توجہ دینا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی کے نزدیک فوری مسئلہ مرکزی حکومت کا ہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے بھی بلایا جا سکتا ہے۔
اب تک کے نتائج کے مطابق پنجاب اسمبلی میں 123 نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کو تحریک انصاف پر دو سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پنجاب حکومت کے لئے نمبر گیم پورا کرنے کی خاطر بھی نون لیگ کے دو درجن سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی کو توڑ کر فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس منصوبہ بندی کے تانے بانے الیکشن سے قبل بُن لئے گئے تھے۔ پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ نون لیگ میں یہ فارورڈ بلاک بن جائے گا اور بعد ازاں پنجاب اسمبلی کی 27 سیٹیں حاصل کرنے والے آزاد امیدوار، قاف لیگ اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ارکان کی مدد سے وہ سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت لا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کسی پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانا ممکن نہیں۔ اس ترمیم کے بعد بھی مختلف پارٹیوں کے ارکان وفاداریاں تبدیل کر کے دوسری پارٹیوں میں جاتے رہے اور ان کے خلاف متعلقہ پارٹیوں کے سربراہ کچھ کرنے سے قاصر رہے۔ تاہم اس ترمیم کے بعد یہ چیز یقینی بنائی گئی ہے کہ اعتماد کے ووٹ اور بجٹ سیشن میں کوئی رکن اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنانے کے لئے متذکرہ ٹاسک سے فی الحال پی ٹی آئی کافی دور دکھائی دے رہی ہے۔ لہٰذا خواہش کے مطابق یہ سب کچھ ہو جانا اتنا آسان بھی نہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی ڈیڈ لاک کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔