فلم ڈائریکٹر عالم دین کیسے بنا

پہلا حصہ

یہ قصہ سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ سلیمان ثنیان کا ہے، اُن کا یہ سفر جرمنی میں کیمیکل انجینئرنگ سے شروع ہوا اور فلم ڈائریکٹر سے ہوتے ہوئے شریعہ کالج ریاض (سعودی عرب) میں آکر ختم ہوا۔ داعیٔ اسلام شیخ سلیمان ثنیان نے بلند پرواز کی آرزوئوں سے سفر شروع کیا اور پھر گمراہی کی اندھیری گھاٹیوں سے ہوتے ہوئے ہدایت اور ایمان کی منزل پر آپہنچے۔
اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ڈاکٹر سلیمان ثنیان کو کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے سرکاری خرچ پر جرمنی بھیجا گیا، مگر وہاں جا کر انہیں محسوس ہوا کہ صرف کیمیکل انجینئرنگ سے وہ شہرت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس لئے انہوں نے سوچا کہ اس کے ساتھ ساتھ کوئی ایسی چیز بھی سیکھیں، جس سے لوگوں کے دلوں کی طرف راہ پا سکیں، انہیں بعض جرمن اساتذہ نے مشورہ دیا کہ فن تمثیل (شوبز) میں مہارت حاصل کریں اور اسپیشلائزیشن کے لئے فلم ڈائریکشن کے میدان کا انتخاب کریں۔
یہ بات ان کے دل کو بھا گئی اور انہوں نے اس خواہش کو ایک چیلنج کے جذبے کے تحت پورا کرنے کی ٹھانی اور فی الواقع کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سینما، ٹی وی اور ڈرامہ کے بارے میں بہت کچھ پڑھ لیا۔
آٹھ سال تک ڈاکٹر سلیمان یہ فنون پڑھتے اور سیکھتے رہے۔ یہاں انہوں نے جرمنی کے ماہر پروفیسرز کی رہنمائی سے ایک ایسا جامع تعلیمی خاکہ تیار کیا، جس کی مدد سے اس فن کے بارے میں اہم ترین معلومات کے ساتھ ساتھ فلم ڈائریکشن کے میدان میں آخری درجے کی مہارت حاصل کی جا سکتی تھی۔ اس کے لئے انہوں نے وہاں کے مختلف اداروں، بالخصوص نیشنل اکیڈمی برائے سینما، اسٹیج اور ٹی وی میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد کیا ہوا، اس کی تفصیل ہم خود شیخ سلیمان ثنیان کی زبانی سنتے ہیں، وہ اپنے اس سفر کے بارے میں کہتے ہیں:
میں نے فن کی تعلیم کے دوران کوئی ایسی فیلڈ نہیں چھوڑی، جس کا کسی طرح سے فلم ڈائریکشن سے تعلق ہو، سب کچھ سیکھا، اس سلسلے میں، میں نے گھڑ سواری کے اداروں میں داخلہ لیا، کشتی رانی سیکھی اور اداکاری و موسیقی سکھانے والے اداروں میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ جہاں آواز کی مختلف قسموں، ان کے تاثیری پہلوئوں اور روشنی کے عمل کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کیا، حتیٰ کہ ڈریس اور ڈیکوریشن کے بارے میں جو کچھ میسر آسکتا تھا، میں نے سیکھا۔ اس طرح میں نے پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کرلیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوا، جس میں فلم ڈائریکشن، عکس بندی، ڈرامہ سازی، فکری تخلیق اور اسٹوری رائٹنگ کی عملی مشق نمایاں موضوعات تھے۔ یہ مرحلہ ختم ہوتے ہی ’’شلرڈ تھیٹر‘‘ اور دیگر کمپنیوں کی طرف سے آفرز کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں محدود مدت تک بطور ڈائریکٹرز، ایڈیشنل ڈائریکٹر یا بطور ایکٹر کام کرنے کے مواقع شامل تھے… مگر میں نے ان تمام آفرز کو ٹھکرا دیا۔
میری زندگی میں دوسرا موڑ اس وقت آیا جب سعودی ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر جنرل سے میری ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھے سعودیہ واپس آنے کو کہا، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ اس میدان میں نئی چیزیں متعارف کرانے میں مجھے مناسب مواقع مہیا کریں گے۔میری خواہش بھی صرف کوئی فلم یا ڈرامہ تیار کرلینے تک محدود نہ تھی بلکہ میں تو کوئی ایسا کام کرنا چاہتا تھا جس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا پیغام پوری دنیا تک پہنچا یا جاسکتا اور اسی شرط پر میں نے فوراً سعودیہ واپس آنے کی دعوت قبول کرلی۔
چار برس تک میں سعودی ٹیلی ویژن میں کام کرتا رہا اور اسی دوران میونخ میں ہونے والی ’’جینس کانفرنس‘‘ میں اپنے وطن کی نمائندگی کی۔ اس کانفرنس کا موضوع : نوجوانوں کی تربیت میں ٹیلی ویژن کے کردار کے متعلق تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment