امام احمد بن حنبلؒ کے ایک پڑوسی گناہوں میں مبتلا ہوگئے اور گناہ کے کاموں میں بہت آگے نکل گئے، ایک دن وہ امام احمد بن حنبلؒ کی مجلس میں آئے… انہوں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے بہت ناگواری سے سلام کا جواب دیا۔ اس پر آپؒ کے پڑوسی نے کہا:
’’حضرت! اب آپ کو مجھ سے نفرت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ میں نے ایک خواب دیکھ کر اپنی زندگی بدل لی ہے۔‘‘
’’امام احمد بن حنبلؒ نے ان سے پوچھا: ’’تم نے کیا خواب دیکھا ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا: ’’میں نے حضور اقدسؐ کو دیکھا کہ آپؐ ایک بلند مقام پر ہیں اور بہت سے لوگ نیچے بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک صاحب اٹھ کر کہتے ہیں: ’’آپ میرے لیے دعا فرمائیں۔‘‘
آپؐ اس کے لیے دعا فرماتے ہیں، اس طرح کئی حضرات اپنے لیے دعا کے لیے کہتے ہیں اور آپؐ ان کے لیے دعا کرتے ہیں، آخر میں میں اٹھنے کا ارادہ کرتا ہوں، تاکہ اپنے لیے دعا کے لیے کہہ سکوں اور آپؐ میرے لیے دعا کریں… لیکن پھر اپنے گناہوں کا خیال آنے پر شرم کی وجہ سے میں اٹھ نہ سکا، پھر آپؐ خود ہی مجھ سے فرماتے ہیں:
’’تم بھی مجھ سے دعا کے لیے کہو … میں تمہارے لیے دعا کروں گا، کیونکہ تم میرے کسی صحابیؓ کو برا نہیں کہتے۔‘‘
یہ سن کر میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور دعا کے لیے کہتا ہوں… آپؐ میرے لیے بھی دعا کرتے ہیں، میں خواب سے بیدار ہوا تو میں نے گناہوں سے توبہ کرلی۔‘‘
یہ خواب سن کر حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’اے حنفیہ! اے فلاں … اور اے فلاں … اس واقعے کو یاد کرلو! لوگوں سے اس خواب کو بیان کرو، اس سے بہت فائدہ ہو گا۔‘‘
ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے امام محمدؒ سے کم سونے کی وجہ پوچھی تو آپؒ نے فرمایا:
’’میں کیسے سو جاؤں … سب لوگ اس لیے اطمینان سے سو رہے ہیں کہ جب کوئی مسئلہ پیش آئے تو ہم امام محمد سے پوچھیں گے، اگر میں بھی سو گیا تو دین کا نقصان ہوگا۔‘‘
ایک مرتبہ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ نے مولانا اشرف علی تھانویؒ سے پوچھا: ’’حضرت تنخواہ لینے میں بہت الجھن محسوس کرتا ہوں، یہ تو دین فروشی ہے۔‘‘
ان کی بات کے جواب میں حضرت حکیم الامت نے فرمایا: ’’تنخواہ لینی چاہیے، کیونکہ اس سے طبیعت پر بوجھ رہے گا کہ کام اچھی طرح کرنا چاہیے۔‘‘
مولانا مرتضیٰ حسن نے جواب دیا: ’’یہ تو ہوئی مصلحت! لیکن اس کا کیا علاج ہے کہ اس میں دین فروشی ہے۔‘‘
اس پر مولانا اشرف علی تھانویؒ نے فرمایا: ’’اس میں دین فروشی ہے یا نہیں، اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر کسی جگہ گزارے کے لائق تنخواہ ملتی ہے، مگر دوسری جگہ زیادہ کی صورت نظر آئی اور دینی خدمت کا موقع زیادہ نہیں تو اگر پہلی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جائے گا تو یہ دین فروشی ہوگی۔‘‘
مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ریاست بہاول پور میں بہت اچھی تنخواہ پر کام کررہے تھے … حضرت مفتی محمد حسنؒ (بانی جامعہ اشرفیہ لاہور) نے انہیں خط لکھا:
’’حضرت آپ امیروں کی بریانی کھاتے رہتے ہیں، ہم فقیروں کی دال بھی قبول فرمائیں۔‘‘
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے بغیر کوئی تفصیل معلوم کیے وہاں کی ملازمت چھوڑ دی اور باقی زندگی جامعہ اشرفیہ میں دینی خدمت کرتے گزاری۔
مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی خدمت میں ایک شخص نے ہدیہ پیش کیا، آپ نے لینے سے انکار کردیا … اس نے بہت اصرار کیا، لیکن آپ نہ مانے، جب اس نے دیکھا کہ مولانا نہیں مان رہے تو مجبور ہو کر واپس جانے لگا، جب مسجد سے باہر نکلا تو اس کی نظر آپ کے جوتوں پر پڑی، اس نے وہ رقم مولانا کے جوتوں میںچھپادی ، اس نے سوچا تھا کہ جب مولانا گھر جانے لگیں گے تو جوتوں میں رقم پاکر وہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔
جب مولانا محمد قاسم نانوتویؒ باہر نکلے تو جوتوں میں رقم دیکھی، آپ مسکرانے لگے اور فرمایا:
’’جو آدمی دنیا کو دور دھکیلتا ہے، دنیا اس کے جوتوں میں ذلیل و خوار ہوکر آتی ہے، پہلے یہ بات کتابوں میں پڑھتے تھے، آج خدا کا شکر کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔‘‘ (جاری ہے)