یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
خوش قسمتی سے ’’جسی پاؤ والی‘‘ نامی پہلا گاؤں صرف ایک ڈیڑھ میل پر واقع تھا۔ جہاں چار خواتین اترنے سے گاڑی کے بوجھ اور زنانی سواریوں کے شور دونوں میں نہایت راحت بخش کمی ہوئی۔ اگلی منزل کٹر سنگھ والا گاؤں تھا اور وہاں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مطابق فاصلہ بہت کم تھا اور سیدھا راستہ وہاں تک جاتا تھا۔
ان خواتین کا بیان درست ثابت ہوا۔ وہ چھوٹا سا گاؤں واقعی بمشکل ایک میل دور نکلا۔ اب میری گاڑی میں صرف دو خواتین رہ گئی تھیں۔ میں نے ان سے منزل اور راستے کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے عقب نما آئینے پر نظر ڈالی۔ اچانک میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ ان دونوں خواتین میں سے ایک بکرم سنگھ کی بیوی پریتو اور دوسری اس کی منہ چڑھی ملازمہ جسی تھی۔
میں نے جلدی سے نظریں عقبی شیشے سے ہٹالیں ’’کتھے چلنا اے جی… نالے راہ وی دس دیو!‘‘۔ میں نے اپنی آواز حتی الامکان تبدیل کرتے ہوئے پوچھا۔ میرا ذہن قیاس آرائیوں میں مصروف تھا۔ کیا یہ دونوں مجھے اس قدرے بدلے ہوئے حلیے کے باجود پہچان تو نہیں لیں گی؟ اگر انہوں نے مجھے پہچان لیا تو مجھے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ لیکن سب سے پہلے تصدیق ہونی چاہیے کہ یہ مجھے پہلے ہی پہچان تو نہیں چکیں؟ اس کا تعین تو ان کے ردِ عمل سے ہی ہو سکتا ہے۔
’’بھاگو پنڈ چلو… اے راہ سدھی اوتھے ای جاندی اے!… دو ایک میل اگے ہے گا‘‘۔ پریتو بھابھی نے جواب دیا۔ میں فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کے لہجے میں کوئی قابل شک بات ہے یا نہیں۔ میں نے مزید کچھ کہے بغیر گاڑی آگے بڑھادی۔ کچھ دیر بعد میں نے چور آنکھوں سے عقبی آئینہ دیکھا۔ وہ دونوں آپس میں کچھ کھسر پھسر کر رہی تھیں۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ میرا پول کھل چکا ہے۔ اب میری خیر نہیں۔ میں کیا کروں؟ کیا گاڑی یہیں چھوڑ کر فرار ہوجاؤں؟
کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے مزید تصدیق تک انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہو سکتا ہے میرے دل کا چور مجھے اندیشوں میں مبتلا کر رہا ہو۔ ہو سکتا ہے میری پیشانی پر جھکی چھجے دار چوٹی کی وجہ سے یہ مجھے ٹھیک طرح دیکھ ہی نہ سکی ہوں۔
’’تُہانوں بھاگو پنڈ دی راہ تے مالوم ہونی چاہیدی آ‘‘۔ پریتو بھابھی کی بات نے مجھے سوچ سے چونکا دیا۔ میرے ذہن میں ایک بار پھر شک لہرایا۔ یہ عورت کیا مجھ سے چوہے بلی کا کھیل رہی ہے؟
میں نے اس کے لہجے میں طنز تلاش کرنا چاہا، لیکن یقین کی حد تک نہیں پہنچ پایا۔ اس کے استفسار یا طنز پر کوئی جواب دینا مجبوری تھی۔ ’’جی مینوں اس کھیتر (علاقے) دی راہوں دا پتا نئیں اے۔ میں ایتھے دا نئیں آں۔ سردار جوگندر ہوراں نال فریدکوٹ توں ایتھے آیا ہم!‘‘۔
’’فیر انہاں نو بھاگو پنڈ دی کتھوں خبر ہونی اے سردارنی جی!‘‘۔ جسی حسب عادت گفتگو میں مداخلت کیے بغیر نہ رہ سکی۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئی ’’تُسی خیال نال گڈی چلاؤ۔ اس علاقے وچ راتی سُور پھردے رہندے نے۔ اچانک گڈی دے سامنے آجاندے نے!‘‘۔
میں نے اس گفتگو کی روشنی میں خود کو اطمینان دلایا کہ یہ دونوں مجھے شناخت نہیں کر سکی ہیں اور خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن میرے دل میں پروان چڑھتے اندیشے کم نہیں ہوئے۔ میں نے کچھ دیر بعد ایک بار پھر ان پر نظر ڈالی تو وہ پھر سرگوشیاں کرتیں نظر آئیں۔ اتفاق سے عین اسی وقت جسی کی نظر عقبی آئینے پر پڑی۔ وہ مسکرائی ’’بس جی ہن اپڑن آلے آں۔ او سامنے والی گلی دے بعد والی گلی وچ موڑ لینا!‘‘۔
میں نے کچھ کہے بغیر اس کی ہدایت پر عمل کیا۔ اب ہم جس گلی میں آگے بڑھ رہے تھے، وہ میرے لیے اجنبی نہیں تھی۔ ظہیر اور میں اسی کے راستے فرار ہوئے تھے۔ لیکن اُس وقت پیدل اور افراتفری کا شکار ہونے کی وجہ سے ہمیں اندازہ نہیں ہوا تھا کہ یہ گلی گہرے کھڈوں سے بھری پڑی ہے۔ گاڑی کو آگے بڑھتے ہوئے بار بار زوردار جھٹکے لگ رہے تھے۔ بکرم سنگھ کی حویلی پہنچنے والے تھے اور جہاں تک میرا اندازہ تھا، وہاں تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ تھا۔
لگ بھگ سو گز بعد ایک موڑ گھوم کر ہم منزل پر پہنچ گئے۔ میں نے گاڑی حویلی کے پھاٹک کے سامنے رو ک دی۔ لیکن اترنے کے بجائے اسٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھا رہا۔ گاڑی کا انجن بدستور گھر گھر کر رہا تھا۔ حویلی کے پھاٹک کے اوپر بنی چوکی پر تعینات دو نالی شاٹ گن لئے مسلح کارندہ گاڑی رکتے ہی چوکنا ہوگیا تھا۔ پریتو نے آواز لگاکر اسے پھاٹک کھولنے کا حکم دیا۔ میں منتظر تھا۔ لیکن دونوں خواتین گاڑی سے اترنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کیسے دفع ہونے کو کہوں۔ میں اسی کشمکش میں تھا کہ حویلی کا پھاٹک چوپٹ کھل گیا۔ شاٹ گن بردار چوکی دار شاید پہلے سے منتظر تھا۔
’’گڈی حویلی اندر لے چلو!‘‘۔ پریتو نے کہا۔ میں نے اس کے لہجے میں تحکم تلاش کرنا چاہا، لیکن اس نے فوراً ہی بات آگے بڑھائی ’’کج ان پانی کرلو، من کرے تے ایتھے ہی سوجاؤ… سویر ویلے ٹُر جانا!‘‘۔ (کچھ کھا پی لو، جی کرے تو یہیں سوجائو… سویرا ہوتے ہی چلے جانا)۔
میں نے نفی میں سر ہلایا ’’ناں جی، ہوسکدا اے حویلی وچ ہور کسے کم لئی سردار ہوراں مینوں لبھ دے ہون… ہُن مینوں اجاجت دیو!‘‘۔
یہ کہتے ہی میں نے گاڑی پہلے گیئر میں ڈال دی۔ اچانک پریتو بھابھی نے گرج کر چوکی دار کو حکم دیا ’’اینوں روک… نسن نہ دیویں…‘‘۔ یہ سنتے ہی میں نے گاڑی تیزی سے ریورس گیئر میں کی اور ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھا دیا۔ گاڑی کو پیچھے ہٹتے دیکھ کر پریتو بھابھی چوکی دار پر چیخی’’تکنا کی اے… گولی مار دے اینوں!‘‘۔ (کیا دیکھ رہے ہو؟ گولی ماردو اسے !‘‘)۔ یہ سن کر چوکی دار نے تیزی سے شاٹ گن کی نال کا رخ میری طرف کرلیا۔ (جاری ہے)