ایم کی ایم پاکستان ڈبل گیم میں مصروف

امت رپورٹ
ایم کیو ایم پاکستان حسب روایت ڈبل گیم میں مصروف ہوگئی ہے۔ عامر خان اینڈ کمپنی ایک جانب ایم ایم اے کے ساتھ مل کر احتجاج کا عندیہ دیتی رہی، تو دوسری جانب تحریک انصاف سے بیک ڈور پینگیں بھی بڑھائی جا رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ پاکستان، ایم ایم اے کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی میں شرکت کے باوجود احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ کیونکہ ایم کیو ایم اقتدار کے پانی کی مچھلی ہے اور اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ وہ پی ٹی آئی سے مخاصمت کی ’’جرأت‘‘ نہیں کر سکتی۔ پھر یہ کہ عامر خان اینڈ کمپنی سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کا ساتھ دے کر شاید وہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بھی بہتر بنا سکے۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان امین الحق کا کہنا تھا کہ ’’کراچی سمیت سندھ کے جن شہروں میں جہاں بھی امیدوار کھڑے کئے گئے، وہاں نتائج انتہائی مایوس کن دکھائے گئے۔ صاف لگتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان کسی صورت یہ نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل نے ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے اور اے پی سی طلب کی ہے۔ ہم کو بھی دعوت نامہ ملا تھا۔ اس حوالے سے رابطہ کمیٹی کے درمیان مشاورت بھی کی گئی تھی۔ تاہم ایم ایم اے کی جانب سے ملک گیر احتجاج کی کال دی گئی تو اس کے بارے میں رابطہ کمیٹی مشاورت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔ تاہم ہمارا کراچی میں تاحال احتجاج کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین سے خالد مقبول صدیقی کا رابطہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے رابطہ کمیٹی سے مشاورت کریں گے کہ حکومت سازی کے لئے مذاکرات میں جانا ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ متحدہ پاکستان کراچی سمیت سندھ بھر میں امیدوار کھڑا کرکے 2013ء کے الیکشن کے طرح کے رزلٹ کی امیدیں لگائے بیٹھی تھی۔ جوں جوں الیکشن کے نتائج آتے گئے، اسی دوران متحدہ قومی موومنٹ کے امیدواروں اور رہنماؤں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا اور گرما گرم بیانات دیئے کہ دھاندلی ہو رہی ہے اور جان بوجھ کر رزلٹ تاخیر سے دیا جا رہا ہے۔ یہ تک کہا گیا کہ وہ رزلٹ نہ دینے والے پولنگ اسٹیشن اور آر اوز کے دفاتر کا گھیراؤ کریں گے اور دھرنا دیں گے۔ تاہم رزلٹ کے خاتمے تک جب 6 قومی اور 14 صوبائی نشستوں سے ایم کیو ایم کے امیدواروں کے جیتنے کا اعلان سامنے آیا تو متحدہ پاکستان کے احتجاج کی دھمکی میں زور ختم ہو چکا تھا، جبکہ فاروق ستار کے ہارنے پر شکر ادا کیا گیا کہ چلو کنوینر خالد مقبول صدیقی تو جیت چکے ہیں۔ جبکہ ایم ایم اے نے جب بڑے احتجاج کی کال دی اور اے پی سی بلوا کر متحدہ پاکستان کو بھی دعوت نامہ بھیجا تو متحدہ پاکستان جو ملنے والی سیٹوں کو غنیمت جان کر حکومت سازی کے معاملے میں شرکت کا سوچ رہی تھی، اس نے ڈبل گیم شروع کر دیا۔ نجی ٹی وی چینلز پر اعلان کرایا جا رہا ہے کہ فاروق ستار اور کنور نوید جمیل اے پی سی میں جائیں گے۔ فاروقی ستار نے اے پی سی میں شرکت بھی کی ہے۔ جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایم کیو ایم پاکستان سے تحریک انصاف کے بیک ڈور رابطے بھی شروع ہو چکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان نے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے خالد مقبول صدیقی کو فون کیا اور حکومت سازی کے حوالے سے مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دی تھی اور متحدہ نے ان کو بھاری مینڈنٹ لینے پر مبارک باد دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ کی رال اس لئے ٹپک رہی ہے کہ شاید اسے ایک بار پھر وفاقی سطح پر مال مل سکتا ہے، لہذا پی ٹی آئی سے رابطہ جاری رکھا جائے اور حکومت سازی میں اس کا ساتھ دیا جائے۔
دوسری جانب الیکشن نتائج سے دل برداشتہ مصطفیٰ کمال ایم ایم اے کے ساتھ مل کر چلنے کیلئے بظاہر تیار نظر آتے ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی الیکشن سے قبل بڑھکیں مارتی رہی کہ وزیر اعلیٰ اس بار پی ایس پی کا ہوگا۔ کراچی اور سندھ سے 106 امیدوار کھڑے کر کے بیشتر سیٹیں جیتنے کے خواب بھی دیکھے۔ لیکن کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر شہروں کے لوگوں نے متحدہ کو چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل ہونے والے دہشت گردوں کے اس ٹولے کو مسترد کر دیا اور پی ایس پی کو قومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ تک نہیں مل سکی۔ حالانکہ نئی پارٹی تحریک لبیک بھی دو صوبائی سیٹیں حاصل کر چکی ہے۔ ان نتائج کو مصطفیٰ کمال گروپ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ لہذا ایم ایم اے نے جونہی اے پی سی کی دعوت دی، مصطفیٰ کمال اپنے ساتھی رہنما رضا ہارون کے ساتھ اسلام آباد چلے گئے اور کہا جا رہا ہے کہ انہون نے اے پی سی میں شرکت بھی کی ہے۔ ادھر کراچی اور سندھ میں پی ایس پی والے غائب ہو چکے ہیں۔ ان کے مرکز اور دفاتر پر سناٹا طاری ہے۔ اس سلسلے میں پی ایس پی کے ترجمان رہنما افتخار عالم سے جب ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کے حوالے سے ابھی کوئی بات کنفرم نہیں ہے۔ اس حوالے سے ابھی مشاورت نہیں کی گئی۔ کراچی میں پی ایس پی کی جانب سے کوئی احتجاج نہیں کیا جائے گا، بلکہ آئینی اور قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔ اے پی سی میں اپنے تحفظات بتائیں گے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کی اے پی سی جو اس کے بعد ہوگی، اس کے بارے میں بعد میں فیصلہ کریں گے۔ کراچی میں احتجاج کے حوالے سے ابھی کوئی بات زیر غور نہیں ہے۔

Comments (0)
Add Comment