بہترین شغل:
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی والدہ ماجدہ سیدہ خیر النساء کے معمولات ان کی بیٹی لکھتی ہیں:
والد صاحب کی وفات کے بعد ہمہ تن خدا کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ گرمی میں ڈھائی بجے سے اور جاڑوں میں تین بجے سے اور رمضان شریف میں گرمی میں ایک بجے سے اور جاڑوں میں ڈیڑھ بجے سے تہجد کے لیے اٹھ بیٹھتی تھیں اور بڑی لمبی لمبی سورتیں پڑھتی تھیں، مثلاً: سورۂ حدید، سورۂ حشر، سورۂ دخان، سورۂ یٰسین شریف، سورۂ آلم سجدہ، سورۂ طور، سورۂ نجم، سورۂ واقعہ، سورۂ رحمٰن، سورۂ ق، سورۂ ذاریات۔ تہجد میں اس قدر روتی تھیں کہ آنسوئوں سے جانماز تر ہو جاتی تھی اور کبھی اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے دنیا کی خواہش نہیں کی، بس خدا و رسولؐ کی محبت، دینی خوبیاں اور دینی خدمات کی توفیق مانگتیں۔ صبح چار بجے انگیٹھی جلا کر رکھ دیتی تھیں اور خود نماز میں مصروف ہو جاتی تھیں، دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے، نماز پڑھ کر سب کو جگانا شروع کر دیتی تھیں، جو اٹھنے میں تسائل کرتا تو بہت ناراض ہوتی تھیں… خود نماز پڑھ کر اسی جانماز پر اشراق تک بیٹھی رہتی تھیں اور تہجد کے بعد صبح کی نماز تک ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی ضرب لگاتی تھیں۔ پھر صبح کی نماز کے بعد تسبیحات میں مشغول ہو جاتی تھیں، اشراق کی نماز پڑھ کر ناشتہ سے فارغ ہو کر کلام پاک کی تلاوت کرتیں اور کچھ گھر کے کام انجام دیتیں… آنکھوں کی روشنی ختم ہونے کے بعد تسبیح اور تلاوت کلام پاک ہی کام رہ گیا اور ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نماز وقت سے بے وقت نہ ہو جائے۔ گھڑی سرہانے رکھی رہتی تھی۔ ہر آنے جانے والے سے پوچھتی رہتی تھیں کیا بجا ہے؟ (ذکر خیر: صفحہ 99)(جاری ہے)