فلم ڈایریکٹر عالم دین کیسے بنا؟

سن 1396 ہجری میں، میں نے ٹی وی چھوڑ کر فلم انڈسٹری میں کام کرنے کا پروگرام بنایا، جو زیادہ مواقع کے اعتبار سے مجھے ٹی وی کی نسبت زیادہ پسند تھی اور میری خواہشات اور توقعات بھی ایسی تھیں کہ چھوٹی اسکرین سے وابستہ رہ کر کسی طور پوری ہوتی نظر نہیں آتی تھیں۔ ایک اور بڑی رکاوٹ جو مجھے اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھنے نہ دیتی تھی، وہ مال کی کمی تھی، کیونکہ اب تک جتنے پراجیکٹ مجھے ملے تھے، وہ تجارتی منافع سے مشروط تھے۔ سال ڈیڑھ سال تو میں اسی حالت تردد میں رہا۔ کئی کمرشل آفرز آئیں، مگر میں نے سب کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔
ایک روز میں قصیم سے ریاض کی طرف سے آرہا تھا کہ میری زندگی نے ایک نیا موڑ دیکھا، دوپہر سے کچھ دیر قبل کا وقت تھا، میں اپنی گاڑی میں جا رہا تھا۔ اسی دوران مجھے ایک بڑی خوشی ملی اور یوں لگا جیسے میری آنکھیں گہری نیند کے بعد اچانک کھل گئیں، یا ان کے آگے کوئی پردہ تھا جسے ہٹا دیا گیا، میں نے نئے سرے سے دنیا کو ایک نئے زاویئے سے دیکھا، ایک نئی سوچ میرے دل و دماغ پر سوار ہوگئی۔ میں خوشی سے اڑا جا رہا تھا کہ ڈیڑھ سال تک میں ایک کرب میں مبتلا رہا اور کوئی فیصلہ نہ کرپایا کہ کیا کروں۔
آج حق تعالیٰ نے میرے دل میں بات ڈال دی اور ساری بھلائیاں مجھے اپنے سامنے نظر آنے لگیں۔ خوشی کی وجہ سے میں پہلے مسکرایا، پھر میرے آنسو نکل آئے۔ یہ کیا چیز تھی، جس نے مجھے اس قدر جذباتی بنا دیا۔ یہ رب تعالیٰ کا فضل تھا، جس کی وجہ سے اس سفر میں، میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی باقی زندگی کو ہرگز ضائع نہ ہونے دوں گا اور اپنا تعلق اپنے رب سے قائم کروں گا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے خیال ہوا کہ رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق علم کے بغیر کیسے ممکن ہے، یہ بچپن سے میری عادت بھی تھی کہ اس وقت تک کوئی کام نہ کرتا جب تک اسے پوری طرح سیکھ نہ لیتا۔ اس عزم کو پورا کرنے کے لئے میں نے خوب گہرائی سے شریعت کا مطالعہ کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ میں خوشی خوشی فیکلٹی آف شریعہ میں گیا، وہاں کے ذمہ دار حضرات نے مجھے خوش آمدید کہا اور خصوصی دلجوئی اس طرح کی کہ مجھے ہائر اسٹڈیز میں داخلہ کی پیشکش کی۔ مگر میں تو سفر ابتدا سے شروع کرنے کا عادی تھا، اس لئے اس پیشکش کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا۔
میں نے اپنے مزاج کے مطابق بالکل ابتدا سے شریعت کا علم حاصل کرنا شروع کیا … اور پورے اہتمام کے ساتھ کلاس میں حاضر ہوتا رہا، یہاں تک کہ میں نے شریعت میں گریجویشن کرلی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں، میں ایک دن بھی کلاس سے غیر حاضر نہیں ہوا۔ اس کے بعد میں نے ایم اے کیا، پھر ڈاکٹریٹ کی باری آئی، جسے میں نے تھوڑے عرصے میں ہی نمٹا دیا۔
سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شریعت کے مشکل مضامین کی وجہ سے میں اس کی تعلیم میں زیادہ عرصہ نہیں ٹھہر سکوں گا، خصوصاً میں تو ان کی نظر میں شہرت اور مال کا عادی ہوچکا تھا، شاید یہی سوچ کر انہوں نے مجھ سے کہا: ’’ایک نہ ایک دن تمہیں احساس ہو جائے گا کہ تم نے صحیح راہ کا انتخاب نہیں کیا، فیکلٹی آف شریعہ کی لکڑی سے بنی کرسیوں پر زیادہ عرصہ بیٹھنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘ لیکن جو وہ سوچتے تھے، اس کے برعکس ہوا اور دن بدن شریعت کی تعلیم میں میری دلچسپی بڑھتی ہی چلی گئی اور اپنا راستہ بدلنے پر مجھے ایک دن بھی ندامت نہیں ہوئی۔‘‘
اس کے بعد شیخ سلیمان کہنے لگے: ’’میں اب بھی شعبۂ ابلاغ کی طرف لوٹنے کو تیار ہوں، بشرطیکہ جو میں چاہتا ہوں یہ کام اس سے مطابقت رکھتا ہو۔ مجھے اجازت ہو تو یہ کہنا چاہوں گا کہ اب عرب معاشرے کے بارے میں جو فلمیں نشر کی جا رہی ہیں، وہ بالکل فضول اور ایسی لچر ہیں کہ انہیں دیکھنے پر مال اور روپیہ برباد کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں، یہ نہ صرف عقل و فکر کی بربادی کا سبب ہیں، بلکہ ان کا مشاہدہ انسان کو بلا سوچ و سمجھ فضولیات کا دلدادہ بنا دیتا ہے۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں فلموں سے خواتین کا کردار بالکل ختم کرکے بھی اس انڈسٹری کو کامیابی سے چلا سکتا ہوں، جیسا کہ میں نے ’’خادم سیدین‘‘ (دو آقائوں کا غلام) نامی اسٹیج ڈرامہ میں اس کا تجربہ کرکے ثابت کردیا، جہاں نہ صرف یہ کہ اس میں خواتین کو کسی طرح کا کردار نہیں دیا گیا، بلکہ اس میں موسیقی کی جگہ ایسے مؤثر انداز متعارف کرائے، جنہوں نے موسیقی کی ضرورت تک محسوس نہیں ہونے دی، بلکہ وہ موسیقی سے کئی گنا زیادہ پر اثر ثابت ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا: میں اس میدان میں خواتین کا کردار ختم کرکے اس کی جگہ اس سے بہت بہتر کردار پیش کرسکتا ہوں اور کسی بھی طرح کا کام ہو اسے صرف مردوں پرمشتمل کرداروں کے ذریعے نہایت کامیابی سے تیار کرسکتا ہوں۔ جس میں ایک طرف تاثیری قوت اور دلچسپی کے لحاظ سے کسی طرح کی کمی محسوس نہ ہوگی اور دوسری طرف یہ علم اور فکر سلیم کا بھی مرقع ہوگا۔ نسوانی کرداروں کے بغیر ڈرامہ کا تصور کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ یہ تجربہ بارہا سعودی اسٹیج ڈرامہ میں دہرایا جا چکا ہے اور تیس برس کے عرصہ میں کم از کم دسیوں ایسے ڈرامے پیش کئے جاچکے ہیں، جن میں نسوانی عنصر کہیں دکھائی نہیں دیتا اور یہ سب ڈرامے پوری طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ یہ بات تو سعودیہ کی رہی، امریکہ جیسے ملک میں ایک تھیٹر ایسا ہے، جو اسی طرح کے بہترین تجربات پیش کر رہا ہے، جو عورت کے کردار سے بالکل خالی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ڈرامہ فن کا نام ہے، خواتین کی نمائش کا نہیں۔‘‘ (بحوالہ العائدون… ص14 تا 17)

Comments (0)
Add Comment