ایک مرتبہ سلطان غیاث الدین بلبن نے ایک قلعہ پر چڑھائی کی، دشمن نے قلعہ بند ہوکر نہایت بے جگری سے مقابلہ کیا اور قلعہ پر قابض ہونے کی تمام شاہی کوششیں ناکام بنادیں۔ بادشاہ محاصرہ کی طوالت سے اکتا گیا، اسی دوران میں ایک رات سخت طوفان و باد وباران آیا، اس سے شاہی فوج کے بیشتر خیمے گر پڑے اور جگہ جگہ پانی بھر گیا۔ ہوا کے جھکڑ اور موسلا دھار بارش کی وجہ سے تمام خیموں میں آگ بجھ گئی، ادھر سردی کی وہ شدت ہوئی کہ رگوں میں خون منجمد ہونے لگا، اس حالت میں بادشاہ کا خادم خاص (یاسقہ) بادشاہ کے لئے وضو کا پانی گرم کرنے کے لئے آگ کی تلاش میں نکلا، اسے دور ایک جگہ روشنی نظر آئی، وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک خیمہ کھڑا تھا اور اس میں چراغ جل رہا تھا، اس کی روشنی میں ایک درویش صورت سپاہی قرآن حکیم کی تلاوت کررہا ہے۔ خادم پر ہیبت چھا گئی اور اسے آگ مانگنے کا ہوش ہی نہ رہا۔ درویش نے خود ہی سر اٹھا کر پوچھا کیوں بھئی آگ کی ضرورت ہے، خادم نے اثبات میں جواب دیا تو دریش نے کہا جتنی آگ چاہئے ہو بے دھڑک لے جاؤ، خادم نے خیمے کے اندر داخل ہوکر ایک لکڑی سلگائی اور شاہی آبدار خانہ میں آکر حمام گرم کیا، لیکن اس واقعہ سے اس کے دل میں بڑی بے قراری پیدا ہوگئی۔ صبح کاذب کے وقت مشک لے کر پھر اس درویش کے خیمے پر گیا، دیکھا تو وہ درویش خیمہ میں موجود نہ تھے، ادھر ادھر دیکھا تو کچھ دور ایک تالاب نظر آیا، وہاں درویش وضو کر رہے تھے۔ خادم ایک گوشہ میں کھڑا ہوگیا، درویش نے فارغ ہوکر نماز فجر ادا کی اور اپنے خیمے میں آگئے۔ خادم اب تالاب پر پہنچا تو دیکھا تو جس جگہ درویش نے وضو کیا تھا، وہاں کا پانی گرم تھا۔ حالانکہ سردی کی شدت سے اردگرد کا پانی جم گیا تھا، خادم نے اسی جگہ سے اپنے مشک میں پانی بھرا، اس کو لے کر آبدار خانے میں گیا اور اپنی عقل سے معلوم کرلیا کہ یہ سب اسی درویش کی عظمت و برکت کے سبب سے ہوا ہے، لیکن اس راز کو دل ہی میں رکھا۔
دوسرے دن نماز فجر سے کچھ پہلے تالاب پر پہنچا اور پانی کو دیکھا کہ جما ہوا ہے۔ وہ ایک درخت کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا، اتنے میں وہ درویش تالاب پر آئے اور اس کے کنارے پر ایک جگہ بیٹھ گئے، ان کے سامنے پانی اسی وقت جوش مارا۔ انہوں نے وضو کیا اور تشریف لے گئے، خادم نے وہاں سے گرم پانی کی مشک بھری اور سیدھا سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا، سلطان اس وقت دربار عام میں بیٹھا ہوا تھا۔ خادم نے دست بستہ عرض کی کہ حضور اگر میرے ایک راز کو خلوت میں سنیں تو گوش گزار کروں، سلطان نے خلوت میں جاکر اس کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا، خادم نے تمام واقعات من وعن سلطان کے گوش گزار کردیئے۔ سلطان بہت حیران ہوا اور خادم سے کہا کہ کل ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے، تم میری خواب گاہ کے باہر ٹھہرو اور وقت معینہ پر مجھے جگا کر ساتھ لے چلنا، جب رات ہوئی تو سلطان خواب گاہ میں چلا گیا اور دروازے کی کنجی خادم کے حوالے کر دی، جب دو چار گھڑی رات باقی رہ گئی تو خادم نے دروازہ کھول کر سلطان کو جگا دیا، سلطان مسلح ہوکر باہر نکلا اور خادم کے ہمراہ تالاب کے قریب ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا، وہ درویش حسب معمول تشریف لائے، پانی نے جوش مارا، انہوں نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر واپس تشریف لے گئے، سلطان نے پانی کو ہاتھ لگایا تو گرم تھا، وہ بہت حیران ہوا اور سمجھ گیا یہ درویش سپاہی کے بھیس میں کوئی مرد خدا ہیں، اسی وقت خادم کو ساتھ لے کر درویش کے خیمے پر پہنچا، وہ کلام پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ سلطان دست بستہ سامنے کھڑا ہو گیا، یہ ایک عجیب و غریب منظر تھا، ہندوستان کا فرمانروا جس کی ہیبت و جبروت کا اکناف عالم میں ڈنکا بج رہا تھا، ایک بوریا نشین فقیر کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور زبان سے بات نہ نکلتی تھی۔ درویش تلاوت سے فارغ ہوئے تو ان کی نظر سلطان پر پڑی، تعظیم کے لئے اٹھے اور سلام کیا، سلطان نے مؤدبانہ عرض کی کہ میری خوش بختی اور سعادت ہے کہ آپ جیسے بزرگ میرے لشکر میں موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود افسوس ہے کہ یہ قلعہ ابھی تک فتح نہیں ہوسکا، دعا فرمائیے کہ حق تعالیٰ لشکر اسلام کو فتح عطا فرمائے۔ درویش نے ہر چند اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کی، لیکن سب بے سود۔ کیونکہ سلطان جو اپنی آنکھوں سے ان کی کرامت دیکھ چکا تھا، کسی طرح نہ مانا، آخر انہوں نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایا: اسی وقت حملہ کرو، حق تعالیٰ فتح و نصرت عطا فرمائے گا۔
سلطان خوش خوش رخصت ہوا اور لشکر میں پہنچ کر اسی وقت قلعہ پر دھاوا بول دیا۔ محصورین نے بہت جلد ہتھیارڈال دیئے اور قلعے کے دروازے کھول دیئے۔ سلطان اس فتح پر سجدہ شکر بجا لایا اور دوسرے دن برہنہ پا درویش کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا۔ انہیں بادشاہ کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنا تمام مال واسباب فقراء میں تقسیم کردیا اور خود ایک کمبل اوڑھ کر لشکر سے چل کھڑے ہوئے، بادشاہ ان کے خیمہ پر گیا تو اس کو خالی پایا، یہ درویش خواجہ شمس الدین ترکؒ تھے، وہ شاہی لشکر سے نکل کر سیدھے اپنے مرشد مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیریؒ کی خدمت میں پہنچے، وہاں سے چند دن بعد ان کو پانی پت جانے کا حکم ہوا اور انہوں نے باقی زندگی اسی شہر میں اصلاح و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے ہوئے گزار دی۔ (سبق آموز واقعات)
یقیناً مسلمانوں میں ایسے عظیم بزرگ بھی گزرے ہیں، بے شک وہ عظیم لوگ تھے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ لوگ عظیم کیسے بنے، اس کا واضح جواب یہی ہے کہ انہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور من چاہی زندگی کو چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزاری، چنانچہ اگر آج بھی ہم تقویٰ اختیار کر لیں تو یقیناً ہم بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ ہم سب کو اس واقعے سے سبق حاصل کر کے متقی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔