ایک شخص نے مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بیعت کی۔ وہ حکومت کے کسی بڑے عہدے پر تھا، کچھ مدت بعد اس نے ایک لاکھ روپے بطور ہدیہ، منی آرڈر کے ذریعے بھیجے۔
حضرت تھانویؒ نے واپس بھیج دیئے۔ ان صاحب کو ہرگز یہ امید نہیں تھی، انہوں نے خط لکھا:
’’میں نے ایک لاکھ روپے بھیجے، جو آپ نے واپس کردیئے۔ آپ کو مجھ سا کوئی مرید نہیں ملے گا۔‘‘
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے جواب میں لکھا:
’’میں نے پیسے واپس بھیج دیئے ہیں، آپ کو بھی مجھ جیسا کوئی پیر نہیں ملے گا … جو ایک لاکھ روپے کو ٹھوکر مار دے۔‘‘
مفتی محمد شفیعؒ ایک مرتبہ مولانا سید اصغر حسینؒ کے ہاں مہمان ہوئے۔ کھانے سے فراغت پر مفتی صاحب نے دستر خوان سمیٹنا چاہا۔ شاہ صاحب نے پوچھا: ’’کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
مفتی صاحب نے کہا: ’’دسترخوان کو جھاڑ دوں۔‘‘
انہوں نے پوچھا: ’’دسترخوان جھاڑنا بھی آتا ہے؟‘‘
مفتی صاحب بہت حیران ہوئے کہ اس میں جاننے والی کون سی بات ہے … لہٰذا یوں پوچھا: ’’آپ بتا دیجیے! دسترخوان کیسے جھاڑتے ہیں۔‘‘
سید اصغر حسین صاحب نے فرمایا: ’’یہ بھی ایک فن ہے۔‘‘
یہ فرمانے کے بعد آپ نے ہڈیوں کو، گوشت لگی ہڈیوں کو، روٹی کے ٹکڑوں کو اور چھوٹے چھوٹے خوراک کے ذرات کو الگ الگ کیا … پھر ہڈیوں کو ایسی جگہ پھینکا، جہاں کتے کھا سکیں، گوشت لگی ہڈیوں کو ایسی جگہ رکھا، جہاں سے بلی کھا سکے، روٹی کے ٹکڑوں کو دیوار پر رکھ دیا تاکہ پرندے کھا سکیں اور ذرات کو اس جگہ ڈالا، جہاں چیونٹیوں کا بل قریب تھا، پھر فرمایا:
’’یہ خدا تعالیٰ کا رزق ہے، اس کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ہاں ایک عالم مہمان ہوئے۔ انہوں نے کھانے میں مہمان کو پھل پیش کیے، کھانے کے بعد اس عالم نے عرض کیا:
’’حضرت چھلکے باہر پھینک آؤں۔‘‘
آپ نے پوچھا: ’’پھینکنے آتے ہیں؟‘‘
وہ عالم یہ سن کر حیران ہوئے اور کہنے لگے: ’’اس میں آنے والی کیا بات ہے؟‘‘ یعنی یہ بھی کوئی ایسی بات ہے جو کسی کو نہ آتی ہو ۔ اس پر مولانا مدنیؒ نے فرمایا:
’’میرے پڑوس میں غریب لوگ رہتے ہیں … اگر سب چھلکے ایک جگہ پھینک دیئے تو انہیں دیکھ کر حسرت ہوگی، پس تھوڑے تھوڑے چھلکے بہت سی جگہوں پر اس طرح پھینک دیئے کہ دیکھنے والوں کو احساس تک نہ ہو۔‘‘
مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے۔ آپ
کے لیے دودھ لایا گیا، آپ نے دودھ نوش فرمایا، برتن میں تھوڑا سا دودھ بچ رہا، وہ آپ نے اپنے سرہانے رکھ لیا، اس دوران آپ کی آنکھ لگ گئی، جب آپ بیدارہوئے تو گلاس وہاں نہیں تھا، آپ نے خادم سے پوچھا: ’’اس بچے ہوئے دودھ کا کیا کیا؟‘‘
اس نے کہا: ’’حضرت! ایک گھونٹ ہی تو تھا، وہ پھینک دیا۔‘‘
آپ بہت ناراض ہوئے، فرمایا: ’’تم نے خدا کی نعمت کی ناقدری کی۔ خود پی لیتے یا بلی کو پلادیتے تاکہ خدا کی مخلوق کو فائدہ ہوتا۔‘‘
اس کے بعد آپ نے ایک اصول بتایا: ’’جن چیزوں کی زیادہ مقدار سے انسان اپنی زندگی سے فائدہ اٹھاتا ہے، ان کی تھوڑی مقدار کی تعظیم اور قدر اس کے ذمے واجب ہوتی ہے۔‘‘ (جاری ہے)