پی ٹی آئی آزاداراکین کو وزارتوں کا لالچ دینے لگی

تحریک انصاف پنجاب میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت بنانے کیلئے آزاد اراکین کو وزارتوں کا لالچ دینے لگی ہے۔ صوبائی حکومت ہتھیانے کیلئے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے اے ٹی ایم سمجھے جانے والے جہانگیر ترین اور علیم خان نے تجوریوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ فوکس جنوبی اضلاع کے نمائندوں پر ہے۔ جبکہ سابق وزیر اعلیٰ اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہیٰ کی جانب سے بھی آزاد ارکان کو اعلیٰ عہدوں کی پیشکش کی گئی ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے حکومت برقرار رکھنے کیلئے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو ٹاسک دیا ہے۔
صوبہ پنجاب میں حکومت سازی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے عمران خان نے جہانگیر ترین اور علیم خان کو آزاد ارکان سے رابطوں کی ذمہ داری سونپی ہے۔ آزاد ارکان کو اعلیٰ حکومتی عہدوں کی بھی پیشکش کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے خصوصی طیاروں پر سفر بھی شروع ہوگئے ہیں۔ سب سے زیادہ فوکس جنوبی اضلاع کے نومنتخب آزاد ارکان پر کیا جا رہا ہے۔ اب تک تقریباً نصف درجن آزاد ارکان پی ٹی آئی کے ان رہنمائوں سے رابطوں کے بعد بنی گالہ پہنچ رہے ہیں۔ دوسری جانب شہباز شریف نے آزاد ارکان کو (ن) لیگ کی طرف کھینچنے کیلئے حمزہ شہباز کو ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ (ن) لیگ کی جانب سے بھی آزاد ارکان کو وزارتوں کی پیشکش کے علاوہ دیگر مراعات دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے حلیف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ بھی خود کو ایک اہم امیدوار کے طور پر سامنے لانے کیلئے آزاد ارکان کو مسلم لیگ (ق) میں شامل کرنے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے۔ انہیں سب سے پہلی کامیابی اپنے ایک ذاتی وفادار اور پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کے عہدے تک پہنچنے والے محمد خان بھٹی کے بھتیجے ساجد بھٹی کو (ق) لیگ میں شامل کرنے کی صورت میں ہوئی ہے۔ انہیں امید ہے کہ اگلے چوبیس گھنٹے میں وہ مزید کئی آزاد ارکان کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین نے انہیں گرین سگنل دے دیا تو مسلم لیگ نواز میں فارورڈ بلاک پر ان کا ’’فوکس‘‘ ہو گا۔ جس سے پنجاب میں نواز لیگ کو مزید نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی جو اب تک گیم نمبرز کے اعتبار سے پنجاب اسمبلی میں (ن) لیگ سے پیچھے ہے۔ اس کے باوجود پوری طرح کوشش کر رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح پنجاب میں حکومت سازی میں کامیاب ہو جائے۔ اس سلسلے میں عمران خان نے انتخابات کے اگلے ہی روز جہانگیر ترین اور علیم خان کو خصوصی مشن سونپ دیا تھا۔ جس کے بعد وہ ماہر شکاریوں کی طرح پنجاب کے مختلف اضلاع میں بالعموم اور جنوبی اضلاع میں بالخصوص پہنچ رہے ہیں۔ انہیں اس سلسلے میں فیصل آباد میں تو بظاہر کامیابی نہیں ہو سکی۔ لیکن لیہ، مظفر گڑھ اور ملتان سے کامیابی مل چکی ہے۔ عمران خان کے ساتھ بنی گالہ پہنچ کر ملاقات کرنے اور اپنی حمایت پی ٹی آئی کے نام کرنے کا اعلان کرنے والوں میں اتفاق سے وہ آزاد ارکان بھی شامل ہیں جنہیں جہانگیر ترین نے پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف الیکشن لڑنے کی ترغیب دی تھی۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین نے شاہ محمود قریشی سے نالاں ہونے والے ایسے آزاد امیدواروں سے پہلے بھی موثر رابطہ رکھا۔ بعضوں کو الیکشن جیتنے کے لئے مالی وسائل بھی فراہم کئے تھے۔ اب جہانگیر ترین انہی پر زیادہ بھروسہ کر رہے ہیں، جن آزاد صوبائی ارکان کو وہ اپنے خصوصی طیارے میں لے کر اسلام آباد پہنچے ہیں۔ ان میں اکثریت ایسے آزاد ارکان کی ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد ارکان کو قابو کرنے کیلئے عمران خان نے شاہ محمود قریشی، چوہدری سرور یا میاں محمود الرشید کو ذمہ داری دینے کے بجائے ان پارٹی رہنمائوں کو ذمہ داری سونپی ہے جو عمران خان کی اے ٹی ایم مشینوں کی شہرت رکھتے ہیں۔ اور مالی وسائل کو پارٹی لیڈر یا پارٹی کی ضروریات کیلئے اندھا دھند خرچ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اس لئے صاف اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آزاد ارکان کو محض صوبائی وزارتیں، مشیروں کے اہم عہدوں کی پیشکشیں نہیں کی جا رہی، بلکہ ضرورت پڑنے پر کیش مال بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ہفتہ اور اتوار کے دن بڑے اہمیت کے حامل ہیں۔ کیونکہ نواز لیگ کے صدر شہباز شریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف اور ٹیم کے دیگر ارکان بشمول خواجہ سعد رفیق نے بھی انہی دنوں میں پنجاب میں ایک مرتبہ پھر نواز لیگ کی حکومت بنانے کیلئے آخری کوششوں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اگر ان دو دنوں میں نواز لیگ بڑی تعداد میں آزاد ارکان کو اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو شہباز شریف آج اتوار کی شام ایم ایم اے سمیت آل پارٹیز کانفرنس میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ ذمہ داروں کو اسمبلیوں کا حلف اٹھانے یا نہ اٹھانے کے بارے میں حتمی طور پر بتا سکیں گے۔
دوسری جانب آزاد ارکان جن کی پنجاب اسمبلی میں ایک طرح سے معلق اسمبلی کے طور پر سامنے آنے والے نتائج سے اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے، وہ بھی اپنی اہمیت کے پیش نظر زیادہ اچھی ’’ڈیل‘‘ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment