مجھے لگا کہ بس آخری وقت آگیا ہے۔ لیکن میری خوش قسمتی کہ بکرم سنگھ کے ملازم کی شاٹ گن لوڈ نہیں تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی بیلٹ سے کارتوس نکال کر دونوں نال بھرتا، میں گاڑی اتنی پیچھے ہٹا چکا تھا کہ اس کی شاٹ گن سے یکے بعد دیگرے نکلنے والے والی چھروں کی دونوں بوچھاڑیں میری گاڑی کی ونڈ اسکرین تک پہنچنے تک اپنا زور کھو چکی تھیں۔
میں نے گاڑی روک کر موڑی اور تیزی سے وہاں سے بھاگ نکلا۔ میں نے اس منحوس گلی میں داخل ہونے کے باوجود گاڑی کی رفتار ممکنہ حد تک تیز رکھی تھی۔ لیکن وہاں قدم قدم پر استقبال کرتے کھڈے اتنے بے ڈھب اور گہرے تھے کہ گاڑی کسی بھی وقت الٹ سکتی تھی۔ مجھے احتیاطاً اپنی رفتار کم کرنی پڑی۔ خدا خدا کر کے میں اس خستہ حال سڑک پر چڑھا، جس کے ذریعے میں وہاں تک پہنچا تھا اور پھر گاڑی کی رفتار بڑھادی۔
مجھے اس وقت گاڑی کے انجن پر بھی شدید طیش آرہا تھا، جو ایسی حالت میں نہیں تھا کہ میری خواہش کے مطابق برق رفتاری دکھا پاتا۔ تاہم شدید اضطراب کے باوجود مجھے اطمینان تھا کہ میرا تعاقب بھی کیا گیا تو مجھ تک پہنچنا آسان نہیں ہوگا۔ یہاں تک آتے ہوئے میں نے ایک نسبتاً بڑی سڑک عبور کی تھی اور میرے اندازے کے مطابق میںکچھ ہی دیر بعد اس سڑک تک پہنچنے والا تھا۔ اس کے بعد میں موڑ مڑ کر ایک بالکل الگ سمت میں روانہ ہو جاتا۔
میرا قیاس درست نکلا۔ اپنی گاڑی کی ہیڈ لائٹس میں مجھے لگ بھگ سو گز آگے گہری سیاہ سڑک کی جھلک نظرآئی۔ میں نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے گاڑی کی رفتار تھوڑی کم کر دی۔ بس اب میں خطرے کی زد سے باہر ہونے والا ہوں۔ لیکن اچانک مجھے ایک جیپ سڑک سے مڑ کر اسی سڑک پر اپنی طرف بڑھتی نظر آئی۔ میں نے نیم پختہ اور تنگ سڑک پر راستہ دینے کے لیے اپنی گاڑی کی رفتار مزید کم کر کے ایک طرف کرنا چاہی۔ تبھی میری نظر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص پر پڑی۔ بکرم جیت سنگھ کا چہرہ میرا جانا پہچانا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے پہلو والی سیٹ پر موجود چوکی دارخونخوار نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے اپنی شاٹ گن کا رخ میری طرف کر چکا تھا۔ اس مرتبہ اس کی بندوق کی نالیاں خالی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
مجھے یہ سمجھنے میںایک لمحہ بھی نہ لگا کہ میں بری طرح پھنس چکا ہوں۔ وہ شکستہ حال سڑک اتنی تنگ تھی کہ گاڑی موڑکر بھگانا ممکن ہی نہیں تھا۔ کچے میں گاڑی اتارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔دونوں طرف کھیت تھے جن میں گنے کی قدآدم فصل کٹنے کے لیے بالکل تیار کھڑی تھی۔ گاڑی چند گز بھی آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ ریورس میں گاڑی اول تو نہایت سست رفتاری سے بھاگتی اور کسی بھی وقت سڑک سے اترکر الٹ جاتی، دوسرے برق رفتاری سے دوڑتی جیپ مجھے زیادہ پیچھے ہٹنے کا موقع ہی کہاں دیتی ۔ لیکن میں کسی بھی قیمت پر بکرم جیت سنگھ کے ہتھے چڑھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ بات صرف اس کے انتقام کا نشانہ بننے تک محدود نہیں تھی۔ اس کے شکنجے میں آنے یا گولی کھاکر مرجانے کی صورت میں میرے وطن کے تحفظ کے لیے ضروری نقشے شاید ہمیشہ کے لیے بکرم سنگھ کی حویلی کے مہمان خانے میں پوشیدہ رہ جاتے ، جو مجھے کسی قیمت پرگوارانہیں تھا۔ مجھے جان پر کھیل کر بھی فرار ہونے کی کوشش کرنا تھی۔ اس کے لیے حکمتِ عملی پر غور کرنے کے لیے میرے پاس شاید چند ہی لمحے بچے تھے۔ شاٹ گن کی نال سے بارہ بور کے کارتوس میں قید مٹھی بھر چھرّے طوفانی رفتار سے نکلتے اور میرا وجود چیر ڈالتے۔ میں بخوبی جانتا تھاکہ محدود فاصلے پر موجود ہدف کومار گرانے کے حوالے سے کسی رائفل کے مقابلے میں شاٹ گن کا فائر زیادہ ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے چھوٹے شکار کے لیے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے کیوںکہ اس سے شکارکرنے کے لیے نشانے کا بالکل درست ہونا لازمی نہیں ہوتا۔ پھیلاؤ اختیار کرتے ہوئے ہدف کی طرف لپکنے والے بہت سے چھرّوں میں سے چند ایک بھی اسے مارگرانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
بالآخر میں نے قسمت آزمائی کا ایک طریقہ سوچ لیا۔ اس میں جان جانے کا سنگین خطرہ موجود تھا، لیکن اس کے علاوہ میرے لیے کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ میں نے ویگن کا اسٹیرنگ اچانک دائیں طرف گھمایا۔ گاڑی تیزی سے سڑک کے کنارے اگی کماد کی تیار فصل کی طرف بڑھی، لیکن اس سے پہلے کہ گاڑی کھیت کے ساتھ ساتھ چلتے لگ بھگ ڈیڑھ فٹ گہرے کھالے (نالے) میں گرتی، میں نے پوری قوت سے بریک لگائے۔ ویگن کے ٹائر سڑک سے رگڑکھانے پر بری طرح چرچرائے اور گاڑی کا پچھلا حصہ پھسلنے سے گاڑی سڑک کے آر پار ترچھی ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے بجلی کی سی تیزی سے ویگن کا دروازہ کھولا اور قد آدم گنے کی فصل میں گھسنے کے لیے جست لگائی۔ (جاری ہے)