کلام الہی کے عاشق

قسط نمبر90
خوف آخرت کا نتیجہ:
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اپنی ہمشیرہ کے حالات میں لکھتے ہیں:
’’اردو کی معمولی سی تعلیم پاکر بس بچپن ہی سے مذہبی کتابوں کے مطالعے میں پڑ گئیں اور خوف آخرت دل میں ایسا بیٹھا کہ اپنے کو گویا عبادت ہی کے لئے وقف کر دیا۔ کئی کئی پارے قرآن مجید کے مع اردو ترجمہ کے ان کی روزانہ تلاوت کا معمول، پنج وقتہ طویل نمازوں کے علاوہ اشراق، چاشت اور تہجد کی نمازیں داخل معمول، کمزوری کی بنا پر روزے میں ذرا کچی تھیں۔ پھر بھی رمضان کا کوئی روزہ چھوٹنے نہ پاتا۔ حج و زیارت کی اس درجہ شائق کہ کہنا چاہئے کہ 1912ء میں انہیں کا اصرار اور تقاضہ والد ماجد مرحوم کو حج کے لئے لے گیا۔ زکوٰۃ کا حساب باقاعدہ رکھتیں اور یوں عام داد و دہش میں خدا معلوم کتنا دے نکلتیں‘‘۔ (ایضاً: صفحہ 48)
انوار و تجلیات کا مشاہدہ:
حضرت محترم نواب عشرت علی خان قیصر اپنی والدہ کے شغف قرآن کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’ہندوستان کے دوران قیام اپنی جائے رہائش پر بچیوں کو قرآن شریف اور بہشتی زیور مدت تک پڑھاتی رہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت سے بے حد شغف تھا۔ ماہ رمضان المبارک میں تین روز میں ایک قرآن شریف ختم کرنے کا معمول تھا۔ باوجود اس قدر بیماری، معذوری اور ضعیفی کے ایک منزل روزانہ قرآن شریف کی تلاوت کرتی تھیں۔ چھ سات روز میں ایک قرآن پاک ختم کرلیتی تھیں اور یہ معمول انتقال سے چند ہفتے قبل تک رہا۔ بعض دفعہ پوری پوری رات قرآن شریف کی تلاوت میں بسر ہو جاتی تھی۔ رات دن قرآن پاک کی معیت نصیب تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کلام الٰہی کے انوار و تجلیات کا اپنے گردو پیش مشاہدہ کرتی تھیں۔ فرمایا کرتی تھیں کہ جب بستر پر لیٹتی ہوں تو اپنے جسم کے چاروں طرف قرآن پاک کی آیات نہایت نفیس و منور نقش و نگار کے ساتھ متشکل دیکھتی ہوں۔ اس قدر کثرت سے نمودار ہوتی ہیں کہ مجھے بوجہ ادب اپنے پاؤں بستر پر سیکڑنے پڑتے ہیں۔ کمرے کے درو دیوار اور چھت آیات کریمہ سے مزین و منور ہوجاتے ہیں۔ آنکھ کی بینائی بوجہ موتیا بند کے نہایت کمزور ہوگئی تھی، لیکن قرآن پاک کی تلاوت بغیر چشمہ کے کرتی تھیں‘‘۔ (مثالی خواتین: صفحہ: 329، بحوالہ بینات دسمبر 1985ء)

Comments (0)
Add Comment