حضرت ابن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکہ معظمہ میں شدید قحط پڑا، لوگ نماز استسقاء کے لئے میدان عرفات میں جمع ہوتے رہے، لیکن کسی طرح قحط کے آثار کم نہ ہوتے تھے، برابر ایک ہفتہ اسی طرح گزر گیا، چنانچہ آئندہ ہفتہ جمعہ کی نماز کے بعد لوگ پھر عرفات میں جمع ہوئے، تو میں نے دیکھا ایک سیاہ فام ضعیف و ناتواں انسان ہے، جس نے دو رکعت نماز پڑھ کر حق تعالیٰ سے دعا مانگی اور سجدہ میں گر کر قسم کھائی کہ تیری عزت و جلال کی قسم! اس وقت تک سجدے سے سر نہ اٹھاؤں گا، جب تک تو باران رحمت سے اپنے بندوں کو سیراب نہ کردے، چنانچہ اس کی اس دعا کے بعد میں نے دیکھا کہ آسمان پر ابر سیاہ نمودار ہوا اور اس طرح برسا کہ گویا کسی نے مشکیزے کے دھانے کھول دیئے ہیں، بعد ازاں اس سیاہ فام بندئہ خدا نے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کی اور چل دیا۔
میں بھی اس کے پیچھے ہولیا کہ دیکھوں یہ شخص کہاں جاتا ہے، جب وہ چلتے چلتے ایسے مکان میں داخل ہوا، جہاں ایک بردہ فروش (غلام بیچنے والا) رہتا تھا، میں یہ دیکھ کر واپس چلا آیا اور صبح کو کچھ روپیہ لے کر اس بردہ فروش کے مکان پر پہنچا، میں نے کہا کہ مجھے ایک غلام خریدنے کی ضرورت ہے، میری اس درخواست پر اس سوداگر نے تقریباً تیس غلام مجھے دکھائے، ان سب کو دیکھ بھال کر میں نے کہا ان کے علاوہ اور بھی کوئی غلام ہے؟
اس نے جواب دیا ہاں! ایک منحوس سا غلام اور ہے، جو کسی سے بات بھی نہیں کرتا، میں نے کہا وہ بھی مجھے بھی دکھا دو، تو سوداگر اسی غلام کو لے آیا، جس کو میں دیکھ چکا تھا کہ اس کی دعا سے خدا نے باران رحمت کی تھی، میں نے اس سوداگر سے دریافت کیا کہ تم نے اس کو کس قیمت پر خریدا ہے؟ سودا گر کہنے لگا کہ خریدا تو ہے میں نے بیس اشرفیوں کا، مگر آپ کو صرف دس ہی اشرفی کا دے دوں گا۔
حضرت ابن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں، بلکہ میں تم کو اس کی قیمت میں ستائیس اشرفیاں زیادہ دوں گا۔ بس اس کا سودا کرکے میں غلام کو ہمراہ لے کر چلا آیا تو وہ غلام کہنے لگا: اے میرے آقا! آپ نے آخر مجھے کیوں خریدا ہے؟ میں تو کسی بھی خدمت کے قابل نہیں ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے تم کو اس لئے خریدا ہے کہ میں تمہارا خادم بنوں اور تم میرے مالک! میری اس بات پر غلام نے دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
اس پر میں نے عرض کیا کہ میں کل تمہاری کرامت دیکھ چکا ہوں، خدا نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور اپنی رحمت کی بارش کردی، جس کے لئے مخلوق پریشان تھی، اس نے دریافت کیا کہ کیا واقعی آپ نے ایسا دیکھا ہے؟ میں نے کہا ہاں! اس کے بعد اس نے دریافت کیا کہ کیا آپ مجھے آزاد کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ تو خدا کے واسطے آزاد ہے! اس کے بعد میں نے سنا ہاتف غیبی سے آواز آئی کہ ابن مبارک! تجھے بشارت ہو، حق تعالیٰ نے تیری مغفرت فرما دی۔ بعدازاں اس غلام نے کامل وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی اور کہا کہ اس چھوٹے آقا کی آزادی پر تو خدا کا شکر ہے، مگر مولائے اکبر کے آزاد کرنے پر اس کا شکر کس طرح ادا کروں؟
اس کے بعد دوبارہ وضو کرکے اس نے دو رکعت نماز ادا کی اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا مانگی کہ الٰہی تجھے معلوم ہے کہ میں نے تیس سال تک تیری عبادت کی اور میرے تیرے درمیان عہد تھا کہ تو میرا پردہ فاش نہ کرے گا، مگر اب جبکہ یہ راز کھل گیا تو میری روح قبض کرکے اپنے پاس بلالے۔ اتنے میں وہ بے ہوش ہوکر گرا، جو دیکھا تو اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔
حضرت ابن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو معمولی کفن دیا اور نماز پڑھ کر دفن کردیا، پس جب میں سویا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو خوبصورت بزرگ عمدہ سا لباس پہنے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے فرمایا اے ابن مبارک! کیا تجھے خدا تعالیٰ سے شرم نہیں آتی؟ اور یہ کہہ کر جب وہ چلے تو میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ میں محمد مصطفیؐ ہوں! اور یہ میرے پاس حضرت ابراہیمؑ! آخر میں نے دریافت کیا کہ میں خدا سے کس طرح نہیں شرمایا؟ حالانکہ کثرت سے نماز پڑھتا ہوں! اس پر انہوں نے ارشاد فرمایا کہ آج اولیاء میں سے ایک ولی کی وفات ہوئی اور تم نے اس کو اچھا کفن نہیں دیا، چنانچہ جب صبح ہوئی تو میں نے اس غلام کی لاش کو قبر سے نکال کر نہایت عمدہ اور نفیس کفن پہنایا اور دوبارہ نماز جنازہ ادا کرکے دفن کردیا۔ حق تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ آمین ! (بحوالہ حکایتوں کا گلدستہ)
سچ ہے رب تعالیٰ اپنے مطیع اور فرمانبردار کی خود عزت بڑھا دیتا ہے، جو اپنے آپ کو خدا کے لئے فنا کردیتا ہے، خدا تعالیٰ دنیا کو خود اس کے آگے جھکا دیتے ہیں، دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہم سب کو بھی نیک بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العلمین۔