حضرت خواجہ فضل علی شاہ قریشی پوریؒ کی خانقاہ پر سالکین کا ہر وقت ہجوم رہتا تھا، ایک مرتبہ سالکین کے لیے دستر خوان بچھایا گیا اور کھانا چن دیا گیا تو حضرت نے فرمایا:
’’فقیرو! یہ روٹی جو تمہارے سامنے رکھی گئی ہے، اس کی گندم کے لیے کھیت میں باوضو ہل چلایا گیا، باوضو پانی دیا گیا، جب گندم کی فصل پک کر تیار ہوگئی تو اسے باوضو کاٹا گیا، پھر گندم کو باوضو بھوسے سے الگ کیا گیا، اس گندم کو باوضو پیس کر آٹا گوندھا گیا، پھر اس کی روٹی باوضو بنائی گئی، پھر باوضو آپ کے سامنے رکھی گئی ہے، کاش کہ آپ بھی باوضو ہوتے۔‘‘
حضرت مولانا معین الدین اجمیریؒ نے حضرت شیخ الہند محمود الحسن دیوبندیؒ کی بہت شہرت سنی تھی، ان سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا تو دیوبند تشریف لے آئے اور پوچھتے ہوئے حضرت شیخ الہند کے مکان پر پہنچ گئے، گرمی کا موسم تھا، انہوں نے دستک دی تو ایک صاحب باہر آئے، وہ بنیان اور تہبند باندھے ہوئے تھے۔
مولانا معین الدین اجمیری صاحبؒ نے اس سے اپنا تعارف کرایا اور کہا:
’’مجھے حضرت مولانا محمود الحسن سے ملنا ہے۔‘‘
ان صاحب نے مولانا معین الدین اجمیری صاحبؒ سے پر جوش انداز میں مصافحہ کیا، پھر انہیں اندر لے آئے، آرام سے بٹھایا اور کہا: ’’ابھی ملاتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ صاحب چلے گئے۔ مولانا معین الدین اجمیریؒ لگے انتظار کرنے … اتنے میں وہ صاحب تشریف لے آئے، اس کے بعد انہوں کہا:
’’مولانا محمود الحسن کو اطلاع دیجیے۔‘‘
ان صاحب نے فرمایا: ’’آپ بے فکر رہیں، آپ آرام سے تشریف رکھیں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کھانا لے آئے اور کھانا کھانے کے لیے کہا، اس پر مولانا اجیمریؒ نے کہا:
’’میں مولانا محمود الحسن صاحب سے ملنے کے لیے آیا ہوں، آپ انہیں اطلاع کر دیں۔‘‘
ان صاحب نے فرمایا: ’’انہیں اطلاع ہو چکی ہے، آپ کھانا کھالیں۔‘‘
مولانا اجمیری نے کھانا کھالیا تو ان صاحب نے انہیں پنکھا جھلنا شروع کر دیا، جب اس پر بھی کچھ وقت گزر گیا تو مولانا اجمیری غصے میں آگئے اور کہنے لگے:
’’آپ میرا وقت ضائع کر رہے ہیں، میں مولانا سے ملنے کے لیے آیا تھا، اتنی دیر ہو چکی ہے، ابھی تک آپ نے ان سے ملاقات نہیں کرائی۔‘‘
اس پر ان صاحب نے کہا: ’’دراصل بات یہ ہے کہ یہان کوئی مولانا صاحب نہیں ہیں، البتہ اس خاکسار ہی کا نام محمود الحسن ہے۔‘‘
مولانا معین الدین اجمیریؒ یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے، انہیں پتا چل گیا کہ شیخ الہند کیا چیز ہیں۔
مولانا محمود رامپوری رام پور کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جب یہ تعلیم حاصل کرنے دیوبند آئے تو انہوں نے دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد کے حجرے میں قیام کیا، یہ مسجد چھوٹی تو تھی ہی، اس کا نام بھی چھوٹی مسجد تھا۔
حضرت شیخ الہندؒ اسی طرف سے گزرتے تھے، ایک دن وہاں سے گزرتے وقت مولانا محمود رام پوری کو کھڑے دیکھا، شیخ الہند کو ان کے دیوبند آنے کا حال معلوم نہیں تھا، اس لیے ان سے پوچھا: ’’آپ کیسے آئے؟‘‘
انہوں نے بتایا: ’’علم حاصل کرنے کے لیے آیا ہوں، اسی مسجد کے حجرے میں ٹھہرا ہوا ہوں۔‘‘
حضرت ان کے ساتھ حجرے میں تشریف لے گئے، آپ نے دیکھا، وہاں سونے کے لیے ایک بستر فرش پر ہی بچھا ہوا تھا۔
حضرت یہ سب دیکھ کر وہاں سے چلے آئے، آپ سوچ رہے تھے کہ مولانا محمود رام پوری رئیس آدمی ہیں، انہیں زمین پر سونے کی عادت نہیں ہوگی، … لہٰذا تکلیف اٹھاتے ہوں گے، یہی سوچ کر آپ گھر گئے، وہاں سے ایک چارپائی اٹھائی اور اسے اٹھا کے چھوٹی مسجد کی طرف چل پڑے، گھر سے اس چھوٹی مسجد کا فاصلہ بھی زیادہ تھا، آپ اسی حالت میں گلیوں اور بازاروں سے گزرتے چھوٹی مسجد تک پہنچ گئے، اس وقت مولانا محمود رام پوری مسجد سے نکل رہے تھے، یہاں پہنچ کر حضرت شیخ الہند کو خیال آیا کہ یہ مجھے چارپائی اٹھائے دیکھیں گے تو انہیں ندامت ہوگی کہ میری خاطر شیخ الہند نے اتنی تکلیف اٹھائی، چنانچہ انہیں دیکھتے ہی فرمایا:
’’لو میاں اپنی چارپائی … خود اندر لے جاؤ، میں بھی شیخ زادہ ہوں، کسی کا نوکر نہیں۔‘‘ (جاری ہے)