تحریک انصاف ن لیگ کو مولانا معاویۃ اعظم کی ضرورت پڑگئی

امت رپورٹ
انتہا پسندی کا طعنہ دینے والے پنجاب میں حکومت سازی کیلئے مولانا معاویہ اعظم سے رابطے کرنے لگے۔ تحریک انصاف کے چوہدری سرور، مسلم لیگ کے حمزہ شہباز اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہی نے اہلسنت والجماعت کے منتخب صوبائی رکن رابطہ کیا ہے۔ تاہم مولانا معاویہ اعظم کی جانب سے پنجاب میں اس جماعت کی حمایت کی جائے گی، جو حکومت بنانے کی پوززیشن میں ہیں۔ ادھر سخت دینی موقف رکھنے والی تحریک لبیک سندھ میں اپنے دو ارکان صوبائی اسمبلی کو حکومت یا اپوزیشن بینچ پر بٹھانے کا فیصلہ کل لاہور میں منعقدہ شوری اجلاس میں کرے گی۔
الیکشن سے قبل ذرائع ابلاغ میں بعض دینی جماعتوں کو انتخابات میں شرکت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشانات اور کاغذات نامزدگی کی منظوری ملنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم الیکشن مہم شروع ہوتے ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے دینی جماعتوں سے رابطے شروع کر دیئے گئے۔ تاہم ملی مسلم لیگ کی جانب سے کسی کی بھی حمایت نہیں کی گئی۔ جبکہ تحریک لبیک نے بھی اپنے امیدوار میدان میں اتارے اور اچھے خاصے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں، جبکہ پاکستان راہ حق پارٹی اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے اہلسنت و الجماعت کے متعدد امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اہلسنت والجماعت نے ملک بھر کے بیشتر حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی تھی، جس پر اہلسنت والجماعت کو پارٹی کے اندر سے ہی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بعض کارکنان جماعت چھوڑ گئے ہیں۔ تاہم اہلسنت والجماعت کے ایک ہی امیدوار سابق ایم این اے مولانا محمد اعظم طارق کے صاحبزادے مولانا معاویہ اعظم جھنگ شہر کے حلقہ پی پی 126سے کامیاب ہوئے ہیں، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز نے ان سے رابطہ کیا ہے۔ نواز لیگ کے ہی رہنما رانا ثناء اللہ نے بھی ماضی کی طرح پھر ان سے مدد طلب کی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہی اور تحریک انصاف کے چوہدری سرور نے بھی معاویہ اعظم سے رابطہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے کسی بھی جماعت کا ساتھ دینے کی حامی نہیں بھری ہے۔ سب سے کہا گیا ہے کہ مشاورت کیلئے وقت دیا جائے۔ تاہم اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ الیکشن میں اہلسنت والجماعت کی جانب سے سب سے زیادہ حمایت تحریک انصاف کی گئی ہے، جس کی وجہ سے جماعت کے بعض رہنماؤں کی جانب سے ناراضگی کا بھی اظہار کیا جارہا ہے۔ تاہم معاویہ اعظم کے حوالے سے فی الحال فیصلہ کیا گیا ہے کہ جس جماعت کی بھی پنجاب میں حکومت بنے گی، اس کا ساتھ دیا جائے گا، تاکہ جھنگ کے حوالے سے فنڈز سمیت جماعتی پابندیوں اور مسائل کا سامنا نہ کیا جا سکے۔ معلوم رہے کہ اہلسنت والجماعت کی جانب سے الیکشن سے قبل ہی مسلم لیگ (ن) کے بجائے تحریک انصاف کے اکثر رہنماؤں کی حمایت کی گئی تھی، جس پر جماعت کے اکثر رہنماؤں اور کارکنان کی جانب سے فیصلوں کو تسلیم کیا گیا تھا۔ تاہم متعدد رہنماؤں کی جانب سے من پسند فیصلے کئے گئے تھے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے حلقہ این اے 57 پر اہلسنت والجماعت اسلام آباد کے ایک گروپ نے ان کی حمایت کی تھی، جس میں مولانا عبدالرحمن اور حافظ نصیر سر فہرست ہیں۔ جبکہ اسلام آباد میں این اے 54 سے پی ٹی آئی کے اسد عمر الیکشن کے امیدوار تھے، جن کی حمایت اہلسنت والجماعت پنجاب کے ترجمان غلام مصطفی بلوچ نے کی تھی۔ جبکہ لاہور کے حلقہ این اے 129 سے پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان کی حمایت اہلسنت والجماعت لاہور کے صدر حافظ حسین احمد نے کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں حلقہ این اے 38 سے پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور کی حمایت ڈیرہ اسماعیل خان سے اہلسنت والجماعت کے رہنما حاجی اسلام الدین نے کی تھی۔ مانسہرہ میں اہلسنت و الجماعت کے ایک دھڑے نیپی کے 13 سے آزاد امیدوار حاجی محمد صالح محمد کی حمایت کی تھی، جبکہ دوسرے دھڑے نے مسلم لیگ (ن) کے سرادر محمد شاہجہان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اسی دھڑے نے مسلم لیگ کے سردار محمود یوسف کی حمایت بھی پی کے 34 سے کی تھی۔ تاہم کے پی کے جنرل سیکریٹری مولانا رب نواز طاہر نے مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی کے سیاسی مشیر بابر ندیم نے اٹک کے حلقہ این اے 55 اور 56 میں پی ٹی آئی کے امیدوار میجر طاہر صادق کے جلسے میں جا کر ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ پی پی 15 پر پی ٹی آئی کے رہنما فیض الحسن چوہان کی حمایت اہلسنت و الجماعت کے رہنما مفتی تنویر عالم فاروقی نے کی تھی۔ پشاور میں پی ٹی آئی کے رہنما حاجی شوکت کی حمایت مولانا فخر عالم صدیقی نے کی، جبکہ ہری پور میں بھی دینی جماعت کے رہنماؤں نے این اے 17 پر پی ٹی آئی کے عمر ایوب کی حمایت کی تھی۔ اس حوالے سے اہلسنت و الجماعت کے رہنما مولانا معاویہ اعظم سے رابطے کی کوشش کے باوجود بات نہ ہوسکی۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی کے خصوصی معاون مولانا بابر ندیم سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی جماعت کی حمایت کیلئے باضابطہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے رابطوں کے بعد گزشتہ روز معاویہ اعظم کی جانب سے جھنگ کی سٹی باڈی، کونسلرز، سیاسی کمیٹی کا مشاورتی اجلاس بلایا گیا تھا، جس میں زیادہ تر پی ٹی آئی کے ساتھ الائنس کرنے کا مشورہ دیا۔ حتمی فیصلے کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔
ادھر انتخابی صورت حال کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لینے والی دینی جماعت تحریک لبیک پاکستان ہے، جس کے سندھ سے دو صوبائی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، جن کو سیاسی تنظیموں کی جانب سے خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب کامیاب ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت سازی کے لئے ان کی حمایت کیلئے بھی رابطے کئے جانے کے امکانات ہیں۔ اس حوالے سے تحریک لبیک پاکستان سندھ کے امیر علامہ غلام غوث بغدادی کا کہنا ہے کہ ’’ہم سے ہمارے دو ممبر صوبائی حلقہ پی ایس 115 سے اسمبلی مفتی قاسم فخری اور حلقہ پی ایس 107 سے یونس سومرو کے حوالے سے کسی نے بھی رابطہ نہیں کیا ہے۔ تاہم ہمارے اراکین حکومت کے ساتھ شامل ہون گے یا اپوزیشن میں جائیں گے، اس حوالے سے تحریک لبیک کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس لاہور میں کل (منگل کو) منعقد ہو گا، جس میں فیصلہ کیا جائے گا۔

Comments (0)
Add Comment