کچرا کنڈی سے ملنے والے بیلٹ پیپرز معمہ بن گئے

عمران خان
کراچی کے علاقے قیوم آباد کی کچرا کنڈی سے ملنے والے بیلٹ پیپرز کا معاملہ معمہ بن گیا۔ ضلعی پولیس نے خود کو اس معاملے سے علیحدہ کرکے تحقیقات کی تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن کے ضلعی ریٹرننگ آفیسر پر ڈال دی۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے ضلعی افسران اس معاملے پر بات چیت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ کچرا کنڈی سے بیلٹ پیپرز ملنے کی اطلاع نہ صرف ڈی آئی جی بلکہ علاقہ ایس ایس پی اور متعلقہ تھانے کو بھی دی گئی، لیکن حیرت انگیز طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ایک بھی اہلکار موقع پر نہیں پہنچا۔ جبکہ علاقہ مکینوں نے ہجوم کی صورت میں جمع ہوکر تمام شواہد ضائع کر دیئے، جس کے باعث یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بیلٹ پیپرز الیکشن کے بعد کچرے میں پھینکے گئے تھے یا انہیں پھینکنے کے فوری بعد میڈیا کو بلالیا گیا۔
واضح رہے کہ کراچی کے علاقے قیوم آباد کے سیکٹر اے میں چرچ کے قریب واقع ایک بڑی کچرا کنڈی میں ہفتے کی رات نو بجے بیلٹ پیپرز ملنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ اس وقت یہاں پر مکمل اندھیرا تھا۔ اس کے باوجود تھوڑی دیر میں موقع پر نہ صرف پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے حامی جمع ہوگئے، بلکہ انہوں نے فوری طور پر اس علاقے میں اپنی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں اور عہدیداروں کو بھی بلالیا۔ بیلٹ پیپرز کی وڈیوز بھی بنائی گئیں اور تصاویر میڈیا کے نمائندوں کو بھیج دی گئیں۔ ’’امت‘‘ نے کچرا کنڈی پر جمع ہونے والے متعدد علاقہ مکینوں سے بات چیت کر کے حقائق جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ کچرا کنڈی ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی اور قیوم آباد کی آبادی کو علیحدہ کرنے والی لمبی دیوار کے ساتھ قائم ہے۔ تاہم جس مقام پر بیلٹ پیپرز پائے گئے، وہاں سے کچرا کنڈی شروع ہوتی ہے۔ یہاں دیوار کے ساتھ پھیلے کچرے پر بیلٹ پیپرز اوپر ہی رکھے ہوئے تھے اور ان میں آگ لگی ہوئی تھی۔ تاہم جائے وقوعہ پر موجود افراد کا خیال ہے کہ یہ آگ اسی وقت لگائی گئی تھی، کیونکہ آگ صرف اسی مقام پر لگی ہوئی تھی جہاں بیلٹ پیپرز اور سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کے الیکشن کیمپس پر بچ جانے والی پرچیاں اور کارڈز پڑے تھے۔ تاہم جب اطلاع ملنے پر پیپلز پارٹی اور متحدہ امیدواروں کے حامی یہاں پہنچے تو انہوں نے آگ کو بجھا دیا اور اس میں سے بیلٹ پیپرز نکال کر علاقہ مکینوں کو دکھانے لگے اور ساتھ ہی نعرے لگانے شروع کر دیئے کہ یہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور ہمارے ووٹ نکال کر یہاں پر پھینک دیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد جب پیپلز پارٹی کے حلقہ این اے 241 کے امیدوار معظم قریشی اور پی ایس 97 کے امیدوار وقار شاہ بھی یہاں پہنچے تو ساتھ ہی ایک نجی نیوز چینل کی گاڑی بھی پہنچ گئی۔ جائے وقوعہ پر موجود کئی علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ کچرے میں سے 10 سے 12 بیلٹ پیپرز سالم حالت میں نکال کر کچرے پر پھیلا دیئے گئے تھے۔ یہ بیلٹ پیپرز نئے لگ رہے تھے، جیسے ابھی ہی نکال کر یہاں پھیلائے گئے ہوں۔ حالانکہ اس کچرا کنڈی میں بیلٹ پیپرز تین روز سے پڑے ہوتے تو وہ نہ صرف پرانے ہوجاتے، بلکہ ان پر مٹی اور دیگر گند وغیرہ بھی لگی ہوتی۔
اس موقع پر احتجاج کرتے ہوئے متحدہ اور پی پی عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ یہاں 40 سے زائد بیلٹ پیپر ان کے ہاتھ لگے ہیں، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں پیپرز ان کے پہنچنے سے پہلے ہی جل گئے تھے۔ تاہم جائے وقوعہ کا بغور جائزہ لینے والے علاقہ مکینوں نے بتایا کہ انہیں بیلٹ پیپرز جلے ہوئے نہیں ملے۔ تھوڑے سے جلے ہوئے بیلٹ پیپرز بھی ایک یا دو تھے، جو متحدہ امیدوار کے حامی اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے تھے۔ جس مقام سے بیلٹ پیپرز ملے اس کے اطراف کی گلیوں کے رہائشیوں کو بھی واقعے کی اطلاع ملنے سے پہلے متحدہ کے امیدوار وہاں پہنچ چکے تھے۔ امت کی جانب سے علاقے میں کئے گئے سروے میں کسی بھی شخص نے یہاں بیلٹ پیپرز کی موجودگی کا علم ہونے سے انکار کیا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے اس علاقے سے قومی اسمبلی کے امیدوار معظم قریشی نے ’’امت‘‘ سے بات چیت میں بتایا کہ ان کے ہاتھ صرف ایک بیلٹ پیپر لگا ہے جس کو انہوں نے ہفتے کی رات کو ہی ایک تحریری شکایت کے ساتھ الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیا تھا۔ تاہم باقی بیلٹ پیپرز وہاں پر موجود درجنوں افراد اپنے ساتھ لے گئے تھے، کیونکہ ایک دم اس قدر زیادہ ہجوم جمع ہو گیا تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملنے والے بیلٹ پیپرز میں سے زیادہ پر تیر کے نشان پر مہریں لگی تھیں۔ اکا دکا پر پتنگ پر مہر لگی ہوئی تھی اور ایک بیلٹ پیپر پر چیل کے نشان پر مہر تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے اس معاملے پر تحقیقات نہ ہوئیں تو ان کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟ تو اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تمام صورتحال پی پی قیادت کو بتادی ہے۔ اب جو بھی ہدایات انہیں قیادت کی طرف سے ملے گی اس پر وہ عمل کریں گے۔
اس ضمن میں حلقہ پی ایس 97 کے ایم کیو ایم کے امیدوار سید وقار حسین شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کچرا کنڈی سے کم سے کم 40 بیلٹ پیپرز ملے تھے جن میں سے کچھ پر پتنگ پر مہریں لگی ہوئی تھیں، جنہیں انہوں نے خود دیکھا تھا۔ تاہم جب وقار حسین شاہ سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس کتنے بیلٹ پیپر موجود ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ان کے ہاتھ کوئی بیلٹ پیپر نہیں لگ سکا، کیونکہ ان سے پہلے موقع پر پی پی کے عہدیدار اور کارکن پہنچ چکے تھے اور انہی کے پاس یہ بیلٹ پیپرز تھے۔ ان کہا بھی گیا تھا کہ پتنگ والے بیلٹ پیپرز انہیں دے دیئے جائیں تاکہ وہ بھی الیکشن کمیشن میں شکایت کے ساتھ یہ پیپرز جمع کراسکیں۔ تاہم انہیں کوئی پیپر نہیں مل سکا۔ وقار شاہ کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی شکایت الیکشن کمیشن میں اور متعلقہ تھانے میں کرادی ہے۔
اس ضمن میں امت کو مزید معلوم ہوا ہے کہ واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد بلاول ہائوس سے پی پی کے کچھ رہنما موقع پر آئے تھے جن کے ساتھ ضلعی صدر بھی تھے۔ پی پی کارکنوں نے بیلٹ پیپرز اپنے قبضے میں کر لئے تھے اور کہا تھا کہ وہ یہ ساری چیزیں بلاول ہائوس میں دیں گے اور وہیں سے ایکشن لیا جائے گا۔ علاقہ مکینوں کی جانب سے جائے وقوعہ کی بنائی گئی کئی وڈیوز بھی ’’امت‘‘ کو موصول ہوئیں جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچرے پر صرف 10 سے 12 صاف ستھرے بیلٹ پیپرز پھیلاکر تصاویر بنائی جا رہی تھیں اور ان کی کوریج کی جا رہی تھی۔
علاقے میں یہ واقع پیش آنے کے بعد پی پی اور متحدہ کارکنوں اور عہدیداروں نے الیکشن کمیشن کے علاوہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف بھی احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد دھاندلی سے جیتے ہیں۔ اس ضمن میں پی ایس 97 سے ایم کیو ایم کے وقار شاہ کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما راجہ اظہر نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے، تاکہ الیکشن کو مشکوک بنا کر شکست خوردہ عناصر اپنی جھینپ مٹا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہوں اور حقیقت سامنے آسکے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے جب ایس ایس پی کورنگی ساجد سدوئی زئی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ واقعہ کی اطلاع پولیس کو دی گئی تھی، لیکن چونکہ یہ معاملہ اور اس پر تحقیقات پولیس کے دائرہ کار سے باہر اور الیکشن کمیشن کے ذمے ہے، اس لئے انہوں نے شکایت کرنے والوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پولیس کے بجائے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر سے رجوع کریں۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے موقف لینے کیلئے ضلع کورنگی کیلئے تعینات کردہ ضلعی الیکشن کمشنر پرویز احمد سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں میڈیا کے ذریعے اطلاع مل چکی ہے۔ تاہم وہ اس ایشو پر بات نہیں کریں گے۔

Comments (0)
Add Comment