عباس ثاقب
ٹارچ کی لائٹ میرے ذرا اوپر سے مجھ پر جھکے گنے کے پودوں کو روشن کرتی ہوئی گزری۔ اس کے ساتھ ہی میں بے آواز اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا اور جیسے ہی ٹارچ کا رخ مخالف سمت میں ہوا، میںگنوں کی قطاریں چیرتا ہوا توپ کے طوفانی رفتار والے گولے کی طرح ان دونوں کی طرف بڑھا اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے، میرا زوردار گھونسا بکرم سنگھ کی گدی پر پڑا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے سورن سنگھ کی کمر پر لات ماری۔ مجھے بکرم سنگھ کی چیخ تو سنائی دی تھی، پر مجھے مکے کا پورا اثر دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔ کیونکہ میری ساری توجہ بندوق بردار پر مرکوز تھی۔ کمر پر لات پڑنے سے وہ لڑکھڑایا اور کئی گنوں کو ساتھ لیتا ہوا منہ کے بل ڈھیر ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا، میں نے شاٹ گن اس کے ہاتھ سے چھین لی۔ اچانک روشنی کم ہونے سے لگا کہ ٹارچ بکرم سنگھ کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر چکی ہے۔ میں نے بندوق قبضے میں آتے ہی اس کے بٹ سے سورن سنگھ کی کھوپڑی کے پیچھے ضرب لگائی اور تیزی سے گھوم کر بندوق کی نال کا رخ بکرم سنگھ کی طرف کر دیا۔
بکرم سنگھ مجھے لگ بھگ چت حالت میں گنوں میں الجھا دکھائی دیا۔ ناکافی روشنی میں اس کے چہرے کے تاثرات تو دکھائی نہیں دیئے، لیکن بے حس و حرکت یا کم ازکم نیم بے ہوش ضرور لگ رہا تھا۔ مجھے سورن سنگھ کے ناکارہ ہونے کا پورا یقین تھا۔ چنانچہ بکرم سنگھ کو زد میں لے کر محتاط انداز میں اس کے بالکل قریب پہنچ گیا اور شاٹ گن کی نال عین اس کی چھاتی پر رکھ دی اور سخت لہجے میں حکم دیا ’’جیپ دی کنجی کڈھو سردار جی!‘‘۔
اس نے گویا نیند سے چونک کر میری طرف دیکھا اور پھر دوبارہ آنکھیں بندکرلیں۔ مجھے اس کے ناٹک پر غصہ آگیا۔ ’’کی تسی میرے ہتھوں ای مرنا چاہدے او؟ سنیا نئیں؟ میں جیپ دی کنجی منگی اے!‘‘۔
اس نے ایک بار چونک کر گویا میری بات سمجھنے کی کوشش کی اور پھر اپنی واسکٹ کی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ یہ دیکھ کر میں چوکنا ہو گیا۔ لیکن اس کا ہاتھ جیب میںجانے سے پہلے ہی نیچے گر گیا۔ میں نے نیم تاریکی میں غور سے دیکھا۔ وہ اب مکمل بے ہوش دکھائی دے رہا تھا۔ تاہم میں نے اس کی حالت کو بدستور ناٹک سمجھتے ہوئے انگلی اس کے سینے پر ٹکی ہوئی شاٹ گن کے ٹریگر پر جمائے رکھی اور بائیں ہاتھ سے اس کی جیکٹ کی جیب ٹٹولی۔ وہاں واقعی ایک آہنی چھلے میں پروئی ہوئی چابی موجود تھی۔ میں نے دو انگلیوں کی مدد سے چابی نکالی اور پھر بکرم سنگھ کو بدستور نشانے پر رکھتے ہوئے اس سے کچھ دور پڑی ٹارچ بھی اٹھالی، جو ابھی تک روشن تھی۔ میں نے ایک نظر ان دونوں پر ڈالی اور پھر گنے کے کھیت سے باہر نکل آیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں بکرم جیت سنگھ کی سجی سجائی طاقت ور جیپ میں چوڑی سڑک پر اڑا جا رہا تھا۔
خطرے سے کم از کم وقتی نجات کے نتیجے میں ذہنی تناؤ کم ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرے جسم کے تقریباً سارے کھلے حصے ہلکی گہری خراشوں کے نتیجے میں لہولہان ہیں اور سرد ہوا کے جھونکے زخموں میں تیر کی طرح چبھ رہے ہیں۔ اس حالت میں کسی کی نظروں میں آنا میرے لیے مشکل کھڑی کر سکتا ہے۔ خصوصاً پولیس والے تو مجھے پہلی فرصت میں روک لیں گے، جس کے بعد بھری ہوئی شاٹ گن کی موجودگی مجھے فوراً حوالات پہنچادے گی، اور اس کے ساتھ ہی کہانی اپنے دردناک انجام کو پہنچ جائے گی۔
اس خطرے کا ادراک ہوتے ہی میں نے گاڑی کی رفتار سست کرلی۔ میری نظریں سڑک کے قریب کوئی نالا یا جوہڑ تلاش کر رہی تھیں۔ ٹھنڈا پانی خون دھونے کے علاوہ اسے بہنے سے روکنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
تبھی میری جیپ ایک چھوٹی سی نہر کے پل پر سے گزری۔ میں نے بریک لگایا اور ریورس کر کے جیپ کو پیچھے لے آیا۔ میں نے دیکھا کہ نہر کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی کچی، لیکن ہموار سڑک بھی کہیں جارہی تھی۔ میں نے جیپ اس سڑک پر موڑ کر کچھ آگے بڑھائی اور پھر روک دی۔ نہر کا پانی برف جیسا یخ بستہ تھا۔ منہ پر چھپکّے مارتے ہی مجھے جھرجھری آگئی۔ لیکن میں نے اچھی طرح منہ دھویا اور پھر گردن اور ہاتھوں پر بھی کئی بار پانی بہایا۔ جس سے خون کا رساؤ بھی رک گیا۔ البتہ سردی چڑھنے سے بدن پر بار بار لرزہ طاری ہو رہا تھا۔
وقت کی کمی کے خیال نے مجھے زیادہ دیر وہاں نہیں رکنے دیا۔ میں ایک بار پھر جیپ میں جا بیٹھا۔ لیکن میں نے اگنیشن میں چابی گھمائی ہی تھی کہ میرے ذہن میں بجلی سی چمکی۔ بکرم جیت سنگھ کم ازکم دس منٹ بعد میرے تعاقب میں روانہ ہونے کے باوجود سامنے سے آکر مجھے گھیرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ وہ کسی ایسے متبادل راستے سے یہ کارروائی کرنے میں کامیاب ہوا تھا، جس نے اسے بہت جلد بڑی سڑک تک پہنچا دیا تھا۔
میں پُریقین تھا کہ وہاں سے یہاں تک صرف یہی کچی سڑک اس بڑی سڑک تک آتی دکھائی دی ہے۔ بکرم جیت سنگھ شاید اسی سڑک پر جیپ بھگاتے ہوئے مجھ سے پہلے بڑی سڑک تک پہنچا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر میں اس سڑک پر چلتا جاؤں تو کچھ ہی دیر میں بکرم جیت سنگھ کی حویلی پہنچ سکتا ہوں۔ (جاری ہے)