دبئی سے چرایاگیا نایاب ہیرا سری لنکا سے برآمد

سدھارتھ شری واستو
جرائم کیخلاف برسر پیکار دبئی پولیس نے حیرت انگیز کارنامہ انجام دیتے ہوئے دو ماہ قبل چوری ہونے والا ڈھائی ارب روپے مالیت کا نیلگوں ہیرا سری لنکا سے بر آمد کرلیا۔ ہیرے کو کمپنی میں گارڈ کی ملازمت کرنے والے سری لنکن باشندے نے کنسائنمٹ کے ذریعے سری لنکا پہنچا دیا تھا، جہاں لنکن کسٹمز حکام کو اطلاع دی گئی کہ کنسائنمنٹ میں چرایا گیا نایاب ہیرا موجود ہے۔ ہیرے کی چوری کی منصوبہ بندی میں ملوث محافظ سمیت تین افراد اس وقت دبئی پولیس کی حراست میں ہیں اور انہیں ہائی پروفائل مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ پراسیکیوٹرز ان کیخلاف کیس چند ایام میں عدالت میں پیش کرنے والے ہیں۔ 100سے زیادہ پولیس تفتیش کاروں نے اس قیمتی ترین ہیرے کی چوری اور چور کی کھوج کیلئے ایک ہزار سے زیادہ مقامات کی 9 ہزار گھنٹوں پر مشتمل سی سی ٹی وی ویڈیوز کا تجزیہ کیا، انہیں پرکھا اور ویڈیوز میں مشتبہ دکھائی دینے والے 120 سے زائد افراد کو حراست میں لے کر ان سے تفتیش کی۔ کئی دنوںکی مغز ماری کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ دبئی کی ایک کرنسی ایکسچینج کمپنی سے چرایا جانے والا یہ قیمتی ہیرا شاپنگ مال کے تین میں سے ایک محافظ نے چرایا ہے۔ مذکورہ گارڈ نے ہیرا اپنے جوتے میں رکھ کر پہلے عمارت سے باہر حفاظتی چوکی اور اس کے بعد اپنے گھر اور پھر جوتے کے ایک ڈبے میں رکھ کر اپنے ایک رشتے دار کے گھر پہنچایا، جس نے کمال مہارت اور بظاہر بے اعتنائی سے اس ڈبے کو اپنی کمپنی کے تجارتی مال خانہ میں لے جاکر رکھ دیا۔ جب دبئی سے تجارتی سامان کا کنسائنمنٹ سری لنکا جا رہا تھا تو اس ہیرے والے جوتے کے ڈبے کو دیگر سامان کے ساتھ بحری جہاز میں رکھوا دیا، جہاں سے یہ جہاز معمول کے مطابق دبئی کی ساحلی بندرگاہ سے چیکنگ کروا کر باہر نکلا اور کھلے سمندروں میں سفر کرتا ہوا سری لنکا میں ایک مقام پر لنگر انداز ہوگیا۔ یہاں سے دبئی کے چور سیکورٹی گارڈ کے رشتے دار نے پلاننگ کے تحت اس ہیرے والے ڈبے کو دیگر سامان کے ساتھ نکلوا لیا اور باقاعدہ کسٹم کی چیکنگ میں بھی اس ہیرے کو سری لنکن حکام ٹریس نہیں کر سکے۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے دبئی سے چرائے جانے والے اس نیلگوں ہیرے کی چوری اور بر آمدگی کے حوالہ سے بتایا ہے کہ سات کروڑ چونتیس لاکھ درہم مالیت کا یہ ہیرا ایک کرنسی ایکسچینج کی عالمی کمپنی کی ملکیت تھا، جس کی قیمت کی معلومات جب اس عمارت کے محافظ کو ہوئیں تو سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک محافظ نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ مل کر اس ہیرے کی چوری اور اس کو سائنٹفک طریقہ سے سری لنکا پہنچانے اور بعد ازاں اس کو عالمی مارکیٹ یا مشکلات کی صورت میں بھارتی گجرات کی ڈائمنڈ مارکیٹ میں فروخت کرنے کا ارادہ بنایا تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ اسے دو کروڑ امریکی ڈالرز سے زیادہ قیمتی اس نیلگوں ہیرے کی قیمت بلیک مارکیٹ میں کم از کم ایک کروڑ امریکی ڈالر مل جائے گی، جس سے وہ مالا مال ہوجائے گا۔ لیکن ان شاطر چوروں کو اندازہ نہ تھا کہ دبئی ایک ایسا شہر ہے، جہاں ہر گلی کوچے کی ویڈیو گرافی کی جاتی ہے اور شہر میں ہونے والا کوئی حادثہ یا چوری کا واقعہ دبئی پولیس کے نصب کردہ سی سی ٹی وی کیمروں کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔ دبئی پولیس کے سربراہ عبد اللہ الخلیفہ نے بتایا ہے کہ سری لنکن گارڈ نے اس کمپنی میں رکھے نیلگوں ہیرے کو چوری کرنے کیلئے بہت باریک بینی کے ساتھ پلاننگ کررکھی تھی، جس کے تحت اس نے ہیرے کو مقفل کرنے کیلئے تین پرتی محافظت کے نظام کو توڑنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی، حالانکہ اس سہ پرتی نظام کو جو لگاتار تین دروازوں پر مشتمل ہے، پر تین مختلف گارڈز کا پہرا ہے۔ پہلا گارڈ تیسرے دروازے میں چابی کی مدد سے تالا لگاتا ہے اور دوسرا گارڈ دوسرے دروازے میں پن کوڈ داخل کرتا ہے اور تیسرا گارڈ سب سے آخری دروازے کیلئے ایک الیکٹرونک کوڈ ٹچ سسٹم کے تحت داخل کرتا ہے، جس کی باقاعدہ سی سی ٹی وی کیمرے سے فلم بندی ہوتی ہے۔ لیکن سری لنکن گارڈ نے تینوں نظاموں کو بآسانی ڈی کوڈ کیا اور ہیرے کو نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن چونکہ وہ بھیس بدل کر آیا تھا اس لئے اس کو سی سی ٹی وی کیمرے کی ویڈیو میں پہچاننا ناممکن لگ رہا تھا اور دبئی پولیس کے تفتیش کاروں کیلئے اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے کیلئے شک کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ دبئی پولیس کے کمانڈر انچیف خلیفہ نے بتایا کہ چور کا پس منظر چونکہ محافظت کا پیشہ تھا اس لئے اس نے دو ہفتوں تک اس کی پلاننگ کی۔ بلکہ اس کو چوری کرنے کے بعد سری لنکا پہنچانے کی بھی متبادل منصوبہ بندی کی اور ایک رشتے دار کی مدد سے جوتے کے ڈبے میں ہیرا رکھ کر سری لنکا پہنچانے کا اہتمام کیا۔ تقریباً ساڑھے نو قیراط کا یہ نیلگوں ہیرا، جس کمپنی کی ملکیت تھا اس کے مالک کے براہ راست تعلقات دبئی کے حکمراں خاندان کے رکن پرنس شیخ حمدان بن محمد بن راشد ال مکتوم سے ہیں اور جب ہیرا چوری ہوا اور تین یوم تک اس کا کوئی سراغ نہ ملا تو ہیرے کے مالک نے اپنے دوست شیخ حمدان سے مدد طلب کی جن کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں دبئی پولیس کے انتہائی زیرک افسران کو یہ کیس سونپا گیا، جنہوں نے دو ماہ میں اس کیس کو سائنٹیفک بنیادوں پر حل کیا۔ انہوں نے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگز کی مدد سے جائے واردات کی ویڈیوز سے چور کو دبئی کی ایک شاہراہ تک جاتے ہوئے ٹریس کیا۔ اس کے بعد کئی روز گزر جانے کے بعد کی ویڈیوز سے ایک مشتبہ شخص کو ڈبا لے کر ایک فلیٹ میں لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ گمان کی بنیاد پر کی جانیوالی اس تفتیش میں ایسی ویڈیو کا تجزیہ بھی مفید ثابت ہوا، جس میں ایک فرد کو ساحل سے متصل کمپنی میں وہی ڈبا لے جاتے دیکھا گیا اور بعد ازاں ایک زیرک افسر نے کمپنی کے گارڈز میں سے ایک مشتبہ گارڈ کی قومیت معلوم کی۔ قومیت کا علم ہوا کہ ان میں سے انگلیوں پر گنے جانے والے افراد سری لنکن ہیں۔ دبئی پولیس کے ایک ماہر افسر کا ماننا تھا کہ ’’جب ہم نے اپنا فوکس سری لنکنز پر کیا تو یہ نکتہ ملا کہ جس گارڈ کی آبائی رہائش سری لنکا کے جس مخصوص علاقہ میں ہے، اسی علاقہ کا ایک فرد ساحل کے پاس اسی کمپنی کا ملازم ہے اور بظاہر گارڈ کا رشتے دار بھی ہے۔ دبئی پولیس کے متعلقہ افسران نے کسٹم اور پورٹ حکام سے معلوم کیا کہ آیا اس عرصہ میں کوئی کنسائنمنٹ دبئی سے سری لنکا بھیجا گیا ہے یا نہیں؟ جب تصدیق ہوگئی کہ واقعتا ایک کنسائنمنٹ دبئی کے ساحل سے بحری جہاز کی مدد سے سری لنکا روانہ ہوا ہے تو اس جہاز کی روانگی کی ویڈیوز، ساز و سامان کی ماہیت اور کسٹم کی دستاویزات کا عمیق جائزہ لیا گیا، مگر اس میں کسی مشتبہ چیز کا ذکر نہیں تھا۔ بعد ازاں سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیوز کا باریکی کے ساتھ ہائی ریزیولیوشن اسکرینز پر جائزہ لیا گیا تو عقدہ کھلا کہ ایک مشتبہ سری لنکن نے کارگو بحری جہاز میں جانے والے دوسرے سری لنکن کو ایک ڈبا شاپنگ بیگ میں رکھ کر حوالہ کیا تھا، جس پر دبئی پولیس نے اس ڈبے کو فوکس کیا جو ابتدائی سی سی ٹی وی ویڈیوز میں پہلے ہی مشتبہ تھا۔ اس کے بعد سری لنکن باشندوں کو دبئی پولیس نے حراست میں لے کر سائنٹفک انداز میں تفتیش کا آغاز کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ جوتے کے ڈبے میں دبئی کے مال سے چرایا گیا نیلگوں ہیرا موجود تھا جو پلاننگ کے تحت سری لنکا پہنچ چکا ہے، جس کی تحقیق کے بعد دبئی پولیس نے سری لنکن حکام سے چوری کا ہیرا بر آمد کرنے کیلئے مدد طلب کی جو انہیں فراہم کی گئی اور دبئی پولیس کے ایک اسپیشل دستے نے سری لنکا جاکر اس نیلگوں قیمتی ہیرے کو جوتے کے اسی ڈبے سے بر آمد کرلیا جس کو اس چور محافظ کے رشتے دار نے اپنے گھر میں سنبھال کر رکھا تھا‘‘۔ دبئی پولیس کے ایک سینئر افسر نے بتایا ہے کہ دبئی پولیس نے گزشتہ دس برسوں میں انتہائی بڑے بڑے کیس چند دنوں میں حل کئے ہیں۔ ان میں ایک کیس دبئی کے ہوٹل میں فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے ایک اعلیٰ عسکری کمانڈر محمود ال مبحوح کی شہادت کا تھا جس کو دبئی پولیس نے تین دنوں میں حل کیا تھا اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنٹس کو باقاعدہ شناخت کرکے ٹیرس کیا تھا۔ ان کی حوالگی کیلئے دو مغربی ممالک آسٹریلیا اور برطانیہ کو خط لکھا تھا جہاں کے پاسپورٹ پر اسرائیلی ایجنٹس دبئی میں داخل ہوئے تھے اور محمود المبحوح کو شہید کرکے واپس چلتے بنے تھے۔

Comments (0)
Add Comment