سیٹھی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دینے کو تیار نہیں

نجم الحسن عارف
مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہونے کے باوجود نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی فی الحال مرکز اور صوبہ پنجاب میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اگر اس میں اسے کامیابی مل گئی تو بڑے معاشی چیلنج کے علاوہ ایک بہت بڑی اپوزیشن کا بھی اس کو سامنا کرنا ہوگا۔ اس لئے نجم سیٹھی یا کرکٹ بورڈ کے معاملات متوقع حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں۔ ان ذرائع کے مطابق ماہ ستمبر میں دبئی میں ایشیا کپ بھی ہو رہا ہے۔ لہذا اس سے پہلے کرکٹ بورڈ میں اکھاڑ پچھاڑ ’’رسکی‘‘ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب اگر نئی حکومت نے کرکٹ بورڈ میں ہاتھ ڈالا تو زیادہ بگاڑ کا شکار ہاکی فیڈریشن، ٹینس اور فٹ بال سے متعلق فیڈریشنز کو بھی ساتھ ہی ساتھ دیکھنا پڑے گا۔ جبکہ حکومت فوری طور پر 100 دن کے لئے پہلے سے اعلان شدہ اپنے ایجنڈے پر ’’فوکس‘‘ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق نجم سیٹھی جن کے حوالے سے عمران خان 2013ء کے عام انتخابات میں 35 پنکچرز کی بات کرتے رہے ہیں، اب ان کی اہلیہ جگنو محسن ضلع اوکاڑہ میں اپنے آبائی گائوں سے صوبائی اسمبلی کی آزاد رکن منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف سے دو روز قبل مل کر پنجاب میں حکومت سازی کیلئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرا چکی ہیں۔ ان کی طرف سے ایک ایسے ماحول میں جب پی ٹی آئی کے لیے پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے ایک ایک رکن کی حمایت انتہائی اہم ہے، جگنو محسن کا پی ٹی آئی کی مخالف نواز لیگ کی حمایت کا اعلان کرنا پریشانی کا باعث تو ہے۔ لیکن ابھی اس پر کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا جارہا۔ ذرائع کے مطابق نجم سیٹھی کے خلاف جب پی ٹی آئی کی قیادت اپنا فیصلہ دے گی اور انہیں کرکٹ بورڈ کی سربراہی سے الگ کرنے کا اعلان کرنا ہو گا تو اس وقت نجم سیٹھی کے بارے میں عمران خان کی واضح رائے کے علاوہ ان کی اہلیہ کا بطور آزاد رکن صوبائی اسمبلی حمایت کرنا بھی فیصلے کا باعث بنے گا۔ تاہم ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کرکٹ ٹیم چونکہ ان دنوں اچھی پرفارمنس ظاہر کر رہی ہے۔ اس لیے یہ مناسب وقت نہیں کہ کرکٹ بورڈ میں کوئی اکھاڑ پچھاڑ کی جائے۔ لہٰذا کم از کم دو سے تین ماہ کا انتظار کئے جانے کا امکان زیادہ ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے ذرائع سے ’’امت‘‘ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے چونکہ اپنی ساری توجہ فی الحال حکومت سازی کے معاملات پر مرکوز کر رکھی ہے، اس لئے نجم سیٹھی سے استعفیٰ لینے اور ان کے متبادل کے لیے کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ اس حوالے سے میڈیا رپورٹس میں آ چکا ہے کہ سابق آئی سی سی سربراہ احسان مانی کو پی سی بی کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے ایسی اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان سے اس سلسلے میں کوئی رابطہ ہوا ہے اور نہ ہی ابھی اس کا وقت آیا ہے۔ اسی طرح وسیم اکرم نے بھی ایسی باتوں میں فی الحال کسی قسم کی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وہ انتظامی حوالے سے کوئی تجربہ نہیں رکھتے ہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو مبارک باد دینے کے لیے جن سابق کرکٹرز نے بطور خاص بنی گالہ کا وزٹ کیا ہے، ان میں چیف سلیکٹر انضمام الحق اور سابق فاسٹ بالر شعیب اختر بھی شامل ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انضمام الحق چونکہ ایک بڑی تنخواہ کے ساتھ پی سی بی میں ایک ذمہ داری انجوائے کررہے ہیں، اس لیے مشکل ہو گا کہ وہ اس لاکھوں روپے ماہانہ والے عہدے کو چھوڑ کر چیئرمین پی سی بی بننے کا سوچیں جس کی کوئی باضابطہ تنخواہ نہیں۔ صرف ٹی اے ڈی اے ہے۔ ان ذرائع کے مطابق سابق کرکٹر ذاکر خان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس لیے بہت آسان نہیں ہو گا کہ وہ بھی ایک بہت اچھی تنخواہ والے عہدے کو چھوڑ کر جس میں کسی قسم کی جواب دہی کا معاملہ بھی نہیں۔ وہ پی سی بی چیئرمین کا تنقید کی زد میں رہنے والے بے تنخواہ کے عہدے کو قبول کریں۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں نجم سیٹھی کے علاوہ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ تاہم ’’امت‘‘ کو پی سی بی سے متعلق ذرائع نے بتایا ہے کہ نجم سیٹھی ان ساری افواہوں کے باوجود فوری طور پر مستعفی ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جبکہ پی ٹی آئی بھی سمجھتی ہے کہ پی سی بی میں بیٹھے نجم سیٹھی اس کے لئے کم خطرناک ہوں گے۔ جبکہ پی سی بی سے باہر میڈیا میں بیٹھے نجم سیٹھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment