متکلمہ بالقرآن:
مسلم خواتین کی عبادت و تلاوت کے واقعات کتابوں میں اس کثرت سے ہیں کہ اگر انہیں جمع کیا جائے تو پوری کتاب تیار ہوسکتی ہے، لیکن تمام واقعات کو جمع کرنا ہمارا ہدف نہیں، ہم تو اپنے قارئین کو صرف ایک جھلک دکھانا چاہتے
تھے اور جب آپ نے اپنے قریب کے زمانے کی خواتین کے ذوق تلاوت کی جھلک دیکھ لی ہے تو آیئے! ہم آپ کو خدا کی اس نیک بندی کا واقعہ بھی سنا دیں، جس نے اپنے اوپر لازم کر لیا تھا کہ اپنی زبان سے قرآن کے سوا دوسرا لفظ نہیں نکالے گی، پھر اس نے اپنے عہد کو خوب نبھایا، یہاں تک کہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں وہ اظہار ما فی الضمیر کے لئے قرآنی آیات و کلمات ہی کا سہارا لیتی تھی۔ اس کا مشہور واقعہ جس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، قارئین کے لئے بیروت کے ’’مکتبہ دار الایمان‘‘ سے شائع ہونے والی ایک کتاب کی مدد سے پیش کیا جا رہا ہے، اس کتاب کا نام ہی ’’متکلمہ بالقرآن‘‘ ہے اور اس کی ابتداء اسی واقعہ سے ہوتی ہے۔ آگے چل کر اس میں دوسری بہت سی ذہین، غیور، بہادر، حق گو اور صاحب علم خواتین کے دلچسپ اور عبرت آموز واقعات بھی ذکر کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کے مرتبین کے طور پر ٹائٹل پر حمید زمزم اور محمد کے نام دیئے گئے ہیں۔
مشہور محدث، مصنف، مجاہد اور تاجر حضرت ابن مبارکؒ جن کی زندگی حج، جہاد اور تجارتی اسفار اور حدیث و فقہ کی خدمت و اشاعت میں بسر ہوئی، وہ فرماتے ہیں کہ میں حج اور روضۂ اطہر کی زیارت کے ارادے سے نکلا تو دوران سفر ایک سن رسیدہ خاتون سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی، جو راستے سے بھٹک گئی تھی اور اس نے قمیص اور چادر پہن رکھی تھی، اس بوڑھی خاتون سے میری یوں گفتگو ہوئی:
حضرت ابن مبارکؒ: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بڑھیا: ترجمہ: ’’سلام انہیں کیا جائے گا پروردگار مہربان کی طرف سے‘‘۔(القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: خدا آپ پر رحم کرے، آپ اس جگہ کیا کرتی ہیں؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’جسے خدا گمراہ کردے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارک: میں سمجھ گیا کہ یہ راستہ بھول گئی ہے۔ اس سے پوچھا: آپ کہاں جانا چاہتی ہیں؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’پاک ذات ہے وہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارک: میں سمجھ گیا کہ اس نے حج ادا کرلیا ہے اور اب بیت المقدس جانا چاہتی ہے۔
حضرت ابن مبارکؒ: آپ یہاں کتنے دنوں سے قیام فرما ہیں؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’تین راتیں نہ بول سکو گے درآنحالیکہ تم تندرست ہو گے‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارک: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کھانا نہیں ہے؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارک : آپ وضو کس چیز سے کرتی ہیں؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’پھر تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارک: اگر آپ کھانا چاہیں تو میرے پاس کھانا موجود ہے۔
بڑھیا: ترجمہ: ’’پھر روزہ کو رات ہونے تک پورا کرو‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارک: مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ روزہ رکھے ہوئے ہے تو میں نے کہا کہ یہ مہینہ رمضان کا مہینہ نہیں ہے؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’اور جو کوئی خوشی سے کوئی امر خیر کرے سو خدا بڑا قدر دان ہے بڑا علم رکھنے والا ہے‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارک: ہمارے لئے سفر میں افطار کرنا جائز ہے۔
بڑھیا: ترجمہ: ’’اور اگر تم علم رکھتے ہو تو بہتر تمہارے حق میں یہی ہے کہ تم روزے رکھو‘‘۔ (القرآن)
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭